کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 270
خلاصۂ بحث: روایت بالمعنیٰ کے مسئلہ میں ، میں نے جو طویل بحث کی ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ اصلاحی صاحب نے اس کی جو بھیانک تصویر پیش کی ہے وہ ان کی اپنی ذہنی اپج ہے، حقیقت میں اس کا کوئی وجود نہیں ہے۔ اصلاحی صاحب کے گرد و پیش جو لوگ تھے اور ان کے بعد انکار حدیث کا پرچم جو لوگ اٹھائے ہوئے ہیں وہ میرے اصل مخاطب نہیں ہیں ، بلکہ ان کے مسموم افکار سے متاثر ہو جانے والے وہ لوگ مخاطب ہیں جو براہ راست حدیث اور علم الحدیث کی امہات الکتب کا مطالعہ کرنے اور سمجھنے کی استعداد نہیں رکھتے۔ اس لیے میں نے اس مسئلہ کا مختلف زاویوں سے جائزہ لیا ہے۔ نواں دعویٰ: یہ دعویٰ باطل ہے اس لیے کہ یہ جس روایت پر مبنی ہے وہ حدیث نہیں جھوٹ ہے اور اصول ہے کہ جو چیز باطل پر مبنی ہوتی ہے وہ باطل ہوتی ہے۔ دسواں دعویٰ: اس کے تحت اصلاحی صاحب تحریر فرماتے ہیں : ’’اس میں شبہ نہیں کہ راوی اگر ذہین ہو تو وہ دوسرے کی قابل اعتماد ترجمانی کر سکتا ہے اگر ترجمانی نہیں کر سکتا تو کم از کم وہ اس کی ضروری وضاحب کر سکتا ہے۔‘‘ [1] مولانا کی یہ عبارت بالکل بے معنیٰ ہے، انہوں نے جو کچھ کہنا چاہا ہے اس کی تعبیر میں قاصر رہے ہیں ۔ راوی حدیث کی روایت کرتا ہے، دوسروں کو پہنچاتا ہے وہ کسی کی ترجمانی نہیں کرتا۔ اب جہاں تک ذہانت کا مسئلہ ہے تو ’’ابلیس‘‘ سے زیادہ ذہین کون ہو گا؟ حدیث میں راوی کی تعریف: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس راوی حدیث کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کی ہے اس کی صفت بھی بیان کر دی ہے۔ ارشاد نبوی کے الفاظ ہیں : ((نضّٰر اللّٰہ امرأً سمع منا حدیثًا، فحفظہ حتی یبلغہ، فرب حامل فقہ إلی من ہو أفقہ منہ، و رب حامل فقہ لیس بفقیہ)) ’’اللہ اس شخص کو ترو تازہ رکھے جس نے ہم سے کوئی حدیث سنی اور اس کو یاد رکھا یہاں تک کہ اس کی تبلیغ کر دی، پس بہت سے علم کے نقل کرنے والے ایسے شخص کو علم منتقل کرتے ہیں جو ان سے زیادہ علم رکھنے والے ہوتے ہیں اور بہت سے علم کے ناقل خود عالم نہیں ہوتے۔‘‘[2]
[1] ص ۱۰۶ [2] ص ۳۴۱ ج ۱ ابو داود ۳۶۶۰، ترمذی ۲۶۵۶، ابن ماجہ ۲۳۰، ۳۵۰۶ دارمی ۲۳۵۔