کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 27
کا نہ پایا ہو تو اپنی مسموعات کو نہایت درجہ احتیاط اور بیدار مغزی کے ساتھ ضبط تحریر میں لاتا رہا ہو اور ان کو کسی غلط ہاتھ میں پڑنے سے بچاتا رہا ہو۔ محدثین نے ایسا اس لیے کیا ہے کیونکہ راوی میں ’’ضبط‘‘ کے فقد ان سے اس کی عدالت بھی متاثر ہو جاتی ہے اور حدیث محفوظ طریقے سے دوسروں تک نہیں پہنچتی۔ اس طرح ضبط کی صفت ’’عدالتِ راوی‘‘ کی تکمیلی صفت قرار پائی۔ یہ ہے اس راوی حدیث کی مختصر مگر جامع تصویر جس کو محدثین نے ’’ثقہ‘‘ قرار دیا ہے، یاد رہے کہ جس طرح ہر اچھی اور بری صفت میں درجات ہوتے ہیں ، اسی طرح راویان حدیث کی عدالت اور ضبط میں بھی درجات ہوتے ہیں اور اس کی روشنی میں علوم الحدیث کی کتابوں میں حدیث کے راویوں کی جرح وتعدیل کے مراتب اور درجات بیان کیے گئے ہیں اور یہ بھی اجتہاد یا ظن وگمان سے نہیں ، بلکہ مشاہدات اور تجربات کی روشنی میں ۔ سورۂ حجرات کی آیت کی تشریح: اللہ تعالیٰ نے سورۂ حجرات کی زیر بحث آیت کا آغاز ﴿یااَیہا الذین اٰمنوا﴾ سے کیا ہے، اور جب کوئی حکم بیان کرنے سے قبل کلام کا آغاز ’’حرف نداء‘‘ سے کیا جائے تو مقصد اس حکم کی اہمیت بیان کرنا ہوتا ہے۔ پھر منادی کو صفت ایمان سے موصوف کرنا اس بات پر دلیل ہوتا ہے کہ اس حکم کی تعمیل کرنا مقتضائے ایمان ہے اس تناظر میں فاسق کی دی ہوئی خبر کی تحقیق وتدقیق مقتضائے ایمان ہونے کی وجہ سے فرض ہے۔ فاسق ’’عدالت‘‘ کی صفت سے عاری ہونے کی وجہ سے ثقہ نہیں ضعیف راوی ہے، بایں ہمہ اللہ تعالیٰ نے اس کی دی ہوئی خبر کو رد کر دینے کا حکم دینے کے بجائے تحقیق کرنے کا حکم دیا ہے۔ اسی وجہ سے مشاہیر محدثین نے بعض ایسے راویوں سے حدیثیں روایت کی ہیں جو مجموعی اعتبار سے تھے تو ضعیف، لیکن ان محدثین کی تحقیق کی رو سے وہ حدیثیں صحیح ہیں جو انہوں نے ان سے روایت کی ہیں ، لیکن اس کے لیے جو فہم، جو تحقیق اور جو وسیع اطلاع درکار تھی اس سے ہر کوئی بہرہ ور نہیں تھا۔ راوی ٔعدل کی خبر تحقیق طلب نہیں : اللہ تعالیٰ نے فاسق کی خبر کی تحقیق کرنے کا حکم دے کر یہ حکم بھی دے دیا کہ عدالت کی صفت سے موصوف راوی کی خبر کی تحقیق نہ کی جائے، ورنہ فاسق کا ذکر بے معنی ہو جائے گا جس سے کلام الٰہی پاک ہے، اس طرح وہ مسند حدیث جس کی سند کی تمام کڑیاں باہم متصل ہوں نیچے سے اوپر تک ہر راوی عدالت سے موصوف ہو، نہایت قوی اور قابل اعتماد حافظہ کا مالک ہو اور حدیث نہ شاذ ہو اور نہ معلول وہ لازماً صحیح ہے اور اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق کسی تحقیق وتدقیق کی محتاج نہیں ہے، اور اس کی صحت کو نشانہ بنانا ارشاد الٰہی پر اعتراض کرنا ہے!!! امام ابو عبداللہ محمد بن احمد قرطبی اشعری متکلم اور صوفی ہونے کے باوجود فرماتے ہیں : ((فی ہذہ الآیۃ دلیل علی قبول خبر الواحد اِذا کان عدلاً، لأنہ إنما أمر فیہا