کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 269
’’علی‘‘ یائے متکلم کی طرف مضاف ہے اور مطلب ہے کہ کوئی بات خود گھڑ کر، بنا کر یا وضع کر کے میری طرف منسوب کر دینا کہ میں نے وہ بات کہی ہے۔ لیکن صوفیا اور کرَّامیہ فرقے کے لوگوں نے ترغیب و ترہیب اور فضائل کے بارے میں بہت سی عبارتیں خود گھڑ کر ان کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کر دیا ہے اور جب ان کو زیر بحث حدیث سنائی گئی اور اس میں بیان کردہ وعید سے ان کو خبردار کیا گیا تو انہوں نے یہ کہہ کر اپنے اس ’’مذموم فعل‘‘ کی وجہ جواز پیش کی کہ ’’کذبنا لہ لا علیہ‘‘ ’’ہم نے آپ کے لیے جھوٹ گھڑا ہے، آپ کے خلاف نہیں ۔‘‘ حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں ان کے استدلال کی نکیر کرتے ہوئے اس کو عربی زبان سے ناواقفیت قرار دیا ہے۔ ابن حجر نے یہ بھی لکھا ہے کہ اس حدیث کی بعض سندوں میں ’’لیضل بہ الناس‘‘ کا اضافہ بھی ملتا ہے۔ جس کے ساتھ حدیث کی عبارت یوں ہو گئی ہے: ’’من کذب علی لیضل بہ الناس‘‘ ’’جو میرے اوپر اس لیے جھوٹ بولے کہ اس کے ذریعہ لوگوں کو گمراہ کرے‘‘ لیکن یہ اضافہ ثابت نہیں ہے جس کی روایت بزار نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی نسبت سے کی ہے۔[1] روایت بالمعنیٰ ہی کے ضمن میں ایک اور بات کا ذکر بڑی اہمیت کا حامل ہے جس کی تفصیل یہ ہے کہ اس مسئلہ کو رواح دینے میں صوفیا ہمیشہ سے پیش پیش رہے ہیں ، چونکہ ان کی کتابیں جھوٹی اور من گھڑت روایتوں سے مملو ہوتی ہیں اور ان کی مجلسوں میں جھوٹی روایتوں سے بہت زیادہ استدلال کیا جاتا ہے، اس لیے اگر کوئی ان کے اس فعل کی ازراہ ’’خیر خواہی‘‘ نکیر کرتا ہے تو وہ یہ کہہ کر اس کی وجہ جواز پیش کرتے ہیں کہ یہ ’’روایت بالمعنیٰ‘‘ ہے۔ حاجی امداد اللہ برصغیر کے ایک غالی صوفی گزرے ہیں وہ دینی علوم سے بے بہرہ تھے، لیکن اہل حق اور اہل توحید سے شدید بغض و کینہ رکھتے تھے، مکہ مکرمہ میں اپنے دوران قیام انہوں نے برصغیر کے اہل توحید اوراہل حدیثوں پر ’’وہابیت‘‘ کا الزام لگا کر جو ظلم و ستم کیا ہے اس کی داستان مولانا ابو الکلام آزاد نے اپنی کتاب: آزاد کی کہانی آزاد کی زبانی‘‘ میں مدون کر دی ہے۔ طرف تماشا یہ کہ ’’وحدۃ الوجود‘‘ کے داعی یہ صوفی بزرگ برصغیر کے اکابر احناف کے پیر و مرشد تھے۔ جن میں سے ایک مولانا اشرف علی تھانوی بھی تھے۔ جو ان کو قطب عالم مانتے تھے۔ حاجی امداد اللہ اپنے کتابچوں اور اقوال میں جھوٹی روایتیں اور جھوٹے واقعات حدیث کے نام سے بیان کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے اور مولانا تھانوی ان کے اس فعل کی ’’تبریر‘‘ روایت بالمعنی کہہ کر کیا کرتے تھے۔ میرے اس دعویٰ کی صداقت جانچنے کے لیے مولانا تھانوی کی کتاب ’’امداد المشتاق الی اشرف الأخلاق‘‘ پر ایک طائرانہ نظر ڈال لینا کافی ہے۔ یہ ایک ضمنی بات تھی جس کا ذکر موضوع کی مناسبت سے خالی از فائدہ نہیں ۔
[1] ص ۳۴۱ ج ۱