کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 268
کوئی جھوٹی بات منسوب کرنے کی وعید آئی ہے، یہ حدیث صحابہ کی بہت بڑی تعداد سے ان الفاظ میں مروی ہے: ((من کذب علی متعمّدًا فلیتبوأ مقعدہ من النار)) ’’جو میرے اوپر قصداً جھوٹ بولے وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے۔‘‘[1] ((من تقول علی ما لم اقلہ، فلیتوأ مقعدہ من النار)) ’’جو میری طرف ایسی بات منسوب کرے جو میں نے نہیں کہی ہے وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے۔‘‘ یہ حدیث بخاری میں ’’من یقل علی ما لم أقل‘‘ کے الفاظ میں آئی ہے۔ (نمبر ۱۰۹) اور اس کا شمار ثلاثیات بخاری میں ہوتا ہے، رہے ابن ماجہ اور احمد تو انہوں نے اس کی روایت پہلے الفاظ ہی میں کی ہے۔[2] مذکورہ بالا تینوں تعبیروں میں سے کسی بھی تعبیر میں یہ حدیث اس معنیٰ میں ’’روایات بالمعنی‘‘ میں شمار نہیں ہوتی جس کا دعوی منکرین حدیث کرتے ہیں ، یعنی حدیث کے راوی صحابہ اور تابعین نے حدیث کے الفاظ قصداً بدل دیے ہیں ، روایت بالمعنیٰ کی تعریف سے متعلق اوپر حافظ ابن حجر کا جو قول نقل کیا گیا ہے اس کی رو سے اگرچہ ایسا کرنا جائز تھا، مگر صحابہ اور تابعین روایت حدیث میں جس دقت بیانی اور امانت داری سے موصوف تھے اس کے پیش نظر درست اور صحیح بات یہی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات ان تمام الفاظ میں فرمائی ہے۔ ذیل میں ، میں ’’کذب علیَّ‘‘ کے مترادفات درج کر دینا چاہتا ہوں ، تاکہ یہ معلوم ہو جائے کہ مذکورہ تینوں تعبیروں میں حدیث کے معنی اور مطلب میں ذرہ برابر بھی تبدیلی نہیں ہوتی۔ کذب علیَّ کے مترادفات: أفِکَ (جھوٹ بولنا، کسی پر غلط الزام لگانا) اختلق (جھوٹ گھڑنا) افتری (کوئی بات گھڑ کر کسی کی طرف منسوب کرنا، کسی پر جھوٹا الزام لگانا) تقوَّل (کوئی بات خود گھڑ کر کسی دوسرے کے سر تھوپنا) زوَّر (جعل سازی کرنا، جھوٹی بات سچ کے قالب میں پیش کرنا، ملمع سازی کرنا) ’’کذب علیّ‘‘ کے ان مترادفات میں سے بعض قرآن پاک میں بھی مستعمل ہیں ۔ ایک ضروری وضاحت: عربی میں جو افعال بطور ’’صلہ‘‘ کسی حرف جر کے ساتھ استعمال ہوتے ہیں ، تو حروف جر ان کا لازمی حصہ بن جاتے ہیں اور ان کا مفہوم ان کے ساتھ جڑا ہوتا ہے، نہ تو ان حروف کا الگ سے کوئی مفہوم ہوتا ہے اور نہ ان کے بغیر ان افعال کا استعمال درست ہے، اور نہ ان کی جگہ متبادل حروف ہی استعمال کیے جا سکتے ہیں ۔ اس وضاحت کی روشنی میں ’’کذب علیَّ‘‘ میں ’’علی‘‘ کا الگ سے کوئی مفہوم نہیں ہے یاد رہے کہ ’’علیَّ‘‘ میں
[1] بخاری: ۱۱۰، ۱۲۹۱، ۳۴۶۱، ۶۱۹۷، مسلم: ۳، ۳۰۰۴، ابو داؤد: ۳۶۵۱، ترمذی: ۲۲۵۷، ۲۶۶۹، ۲۹۵۱، ۳۷۱۵، ابن ماجہ: ۳۰، ۳۲، ۳۶، ۳۷۔ [2] ابن ماجہ: ۳۴،۳۵، مسند ۸۲۴۹۔