کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 264
پر استدلال کرتا ہے۔ ہم قرآن کی کسی آیت سے استدلال کرتے ہوئے بھی ایسا کرتے ہیں ، خود احادیث میں بھی قرآنی آیات اختصار کے ساتھ بیان ہوئی ہیں ۔ روایت بالمعنیٰ کی مثالیں : قرآن پاک کی سورۂ زمر کی آیت نمبر ۶۷: ﴿وَالْاَرْضُ جَمِیْعًا قَبْضَتُہٗ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ وَالسَّمٰوٰتُ مَطْوِیَّاتٌ بِیَمِیْنِہٖ﴾ ’’اور قیامت کے دن پوری زمین اس کی مٹھی میں ہو گی اور آسمان اس کے داہنے ہاتھ میں لپیٹے ہوئے ہوں گے۔‘‘ کی تفسیر میں جو صحیح احادیث بخاری، مسلم، ابو داؤد اور بیہقی وغیرہ میں منقول ہیں ان کے راوی عبداللہ بن عمر اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہم ہیں ۔ صحیح بخاری میں یہ حدیث متعدد ابواب کے تحت آئی ہے یہ کتاب التفسیر، باب ۳ کی حدیث ابو ہریرہ سے مروی ہے، جس کے الفاظ ہیں : ((عن ابن شہاب، عن ابی سلمۃ: ان ابا ہریرۃ قال: سمعت رسول اللہ صلي اللّٰه عليه وسلم یقول: یقبض اللہ الارض و یطوی السموات بیمینہ …)) ’’ابن شہاب -زہری- سے روایت ہے، اور وہ ابو سلمہ -بن عبدالرحمن بن عوف- سے روایت کرتے ہیں کہ ابو ہریرہ نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: اللہ زمین کو مٹھی میں لے لے گا اور آسمانوں کو اپنے داہنے ہاتھ میں لپیٹ لے گا…‘‘[1] امام بخاری نے یہی حدیث کتاب الرقاق، باب ۴۴ میں اور کتاب التوحید، باب ۶ میں انہی الفاظ میں دہرائی ہے، البتہ ان دونوں جگہوں پر ’’السموات‘‘ کے بجائے ’’السماء‘‘ آیا ہے۔ [2] اور کتاب التوحید، باب ۱۹ میں عبداللہ بن عمر کی روایت سے اس کا جو اعادہ کیا ہے اس کے الفاظ ہیں : ((ان اللہ یقبض یوم القیامۃ الارض و تکون السموات بیمینہ…)) ’’درحقیقت اللہ قیامت کے دن زمین کو مٹھی میں لے لے گا اور آسمان اس کے داہنے ہاتھ میں ہوں گے…۔‘‘ [3] یہاں یہ واضح کرنا تحصیل حاصل ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ان دونوں صحابیوں کا ایک ہی وقت میں یہ حدیث سننا ضروری نہیں ہے، بلکہ مختلف اوقات میں سننا اقرب الی الصواب ہے۔ کیونکہ اولاً تو انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالہ سے اس کی روایت کی ہے، ابو ہریرہ نے کہا ہے: ’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے‘‘ اور ابن عمر کے الفاظ ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے۔ اس تفصیل کا تقاضا ہے کہ دونوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے الگ الگ
[1] نمبر ۴۸۱۲ [2] ۶۵۱۹، ۷۳۸۲ [3] ۷۴۱۲