کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 263
ہے، بلکہ اس شکل میں پیش کیا ہے کہ راوی، حدیث کی روایت کرتے ہوئے الف سے یاء تک اس کو بدل دیتے تھے اور اسی تناظر میں انہوں نے اور ان کے خلیفہ اور وکیل ڈاکٹر برنی نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ ذخیرۂ احادیث کا بہت بڑا حصہ انہیں روایات پر مشتمل ہے جو روایت باللفظ کی بجائے روایت بالمعنی ہی کے ذریعہ سے ہم تک پہنچی ہیں ۔[1] یہ دعویٰ درحقیقت حدیث اور محدثین کے بارے میں ان کی بدنیتی کی پیداوار ہے، پھر یہ فرما کر: ’’روایت حدیث کا بالمعنیٰ ہونا کوئی ایسی بات نہیں جس پر کوئی معقول آدمی اعتراض کر سکے، احادیث کے لیے قرآن کی طرح الفاظ کی پابندی کے ساتھ روایت کی قید اس کام کو بالکل ناممکن بنا دیتی‘‘ اپنی نظر میں گویا حدیث اور محدثین پر ایک احسانِ عظیم کیا ہے اور روایت باللفظ کو ناممکن قرار دے کر محدثین کو اپنے زعم باطل میں ، روایت بالمعنیٰ کرنے پر ’’حق بجانب‘‘ قرار دیا ہے، اس طرح ’’مبادی تدبر حدیث‘‘ کی پہلی سطر سے آخری سطر تک میں حدیث کی شرعی حیثیت اور محدثین کی خدمات حدیث سے متعلق جو کچھ فرمایا ہے، وہ ’’الذم بما یشبہ المدح‘‘ کی بدترین مثال ہے۔ اور یہ سب کچھ اپنے اس دعویٰ کو درست ثابت کرنے کے لیے کیا ہے کہ ’’قرآن و حدیث کے کام کی نوعیت اور دین میں دونوں کے مقام اور حیثیت میں بڑا فرق ہے۔[2] مگر اتنے بڑے دعوی کی ایک معمولی سی اور کمزور سی دلیل پیش کرنے سے قاصر رہے ہیں ، میں نے اوپر قرآن و حدیث کے مقام اور حیثیت کے ایک ہونے پر جو مدلل بحث کی ہے اس پر ایک طائرانہ نظر ڈال کر ان کی اس غلط بیانی کو سمجھا جا سکتا ہے۔ دراصل ائمہ حدیث کی کتابوں اور ان سے منسوب صحیح اقوال میں جس روایت بالمعنی کا ذکر آیا ہے اس کا تعلق حدیث کے بعض الفاظ کی روایت بالمعنی سے ہے۔ پورے متن حدیث کی روایت بالمعنی سے نہیں ۔ ورنہ حدیث پر قول رسول کا اطلاق صحیح نہیں ہو گا، کیونکہ یہ ایک بدیہی حقیقت ہے کہ کسی عبارت کو الف سے یاء تک بدل دینے کے بعد اس کو اس کے اصل کاتب کی طرف منسوب کرنا جھوٹ اور غلط بیانی ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ’’نخبۃ الفکر‘‘ کے صرف ایک سطری جملے میں روایت بالمعنی کی جو ’’مقبول‘‘ صورت بیان کر دی ہے اس میں اس مسئلہ سے متعلق متقدمین اور متاخرین اہل حدیث کی آراء کو نہایت خوبصورتی اور دقت کے ساتھ سمیٹ دیا ہے، فرماتے ہیں : ((و لا یجوز تعمد تغییر المتن بالنقص و المرادف الا لعالم بما یُحیل المعانی)) ’’عبارت حدیث میں کمی اور مترادف کے استعمال کے ذریعہ دانستہ تبدیلی صرف اس شخص کے لیے جائز ہے جسے اس چیز کا علم ہو جو معنی بدل دیتی ہے۔‘‘ ایسا عام طور پر اس وقت ہوتا ہے جب کوئی محدث حدیث کی روایت اختصار کے ساتھ کرتا ہے یا اس سے کسی مسئلہ
[1] ص ۱۰۰ [2] ص ۱۰۱