کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 262
ان کو ضعیف اور روایت حدیث میں ناقابل اعتبار قرار دیا ہے۔ دار قطنی کا قول ہے: وہ متروک تھے۔ نسائی کہتے ہیں : وہ ثقہ نہیں تھے، ابن حبان نے لکھا ہے: وہ ثقہ راویوں سے ایسی حدیثیں روایت کرتے تھے جو ان کی مرویات میں شامل نہیں ہیں ۔[1] یحییٰ سے یہ اثر روایت کرنے والے سعید جریری ہیں پورا نام سعید بن ایاس جریری ہے یہ ثقہ تھے، لیکن آخری عمر میں ان کا ذہنی توازن جاتا رہا تھا اور حافظہ بھی کمزور ہو گیا تھا، متعدد نقاد حدیث نے ان کے ذہنی توازان کے بگڑ جانے اور حافظہ کے کمزور ہو جانے کی مشاہداتی گواہی دی ہے۔[2] اوپر جو کچھ عرض کیا گیا ہے وہ اس اثر کی سند سے متعلق تھا۔ اب میں اس کے متن پر تبصرہ کروں گا۔ تبصرہ: مذکورہ بالا دونوں آثار میں حفظ حدیث، بلکہ حفظ قرآن کی بالکل غلط تصویر پیش کی گئی ہے۔ اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ صحابہ اور تابعین کے دور میں قرآن پاک کا کوئی جید اور عمدہ حافظ نہیں تھا اور ہر شخص زبانی تلاوت کرتے ہوئے قرآن میں واو اور الف وغیرہ کا اضافہ یا کمی کر دیا کرتا تھا۔ واثلہ بن اسقع کے اثر سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کے دور میں ہی قرآن پاک ہر گھر میں لکھا ہوا موجود تھا اور صحابہ و تابعین کوشش کے باوجود قرآن پاک کسی اضافے یا کمی سے پاک صورت میں حفظ نہیں کر پاتے تھے،جبکہ آج کے اس دور انحطاط میں بھی عرب و عجم کے ایسے لاکھوں حفاظ قرآن مل جائیں گے جو سورۂ فاتحہ سے سورۂ ناس تک ہر اغلاط اور ہر کمی بیشی سے پاک تلاوت کرنے پر قدرت رکھتے ہوں گے جن میں ہزاروں ایسے حفاظ بھی ہوں گے جو قرآن پاک کا ایک لفظ بھی نہیں سمجھتے ہوں گے۔ ان دونوں آثار اور ان کے علاوہ دوسرے آثار میں حدیث کے ساتھ صحابہ و تابعین کے جس عدم اہتمام کی تصویر کشی کی گئی ہے وہ امر واقعہ کے خلاف ہے، حدیث صحابہ، تابعین اور ان کے بعد کے ادوار کے مسلمانوں کے لیے مشعل راہ تھی اور صحابہ اور ان کے بعد کے تینوں قرون مفضلہ میں حدیث کے درس و مطالعہ، اس پر بحث و تحقیق، اس کے راویوں کی ثقاہت و عدم ثقاہت اور حدیث کے الفاظ کی لغوی تحقیق سے لے کر اس کے معانی پر غور و تدبر اور اس سے احکام کے استنباط کی جو مہم جاری تھی اس کو دیکھتے ہوئے لگتا ہے کہ مسلمانوں کے سامنے قرآن و حدیث کے درس و مطالعہ کے سوا کوئی اور کام نہیں رہ گیا تھا۔ روایت بالمعنیٰ کی حقیقت: امین اصلاحی اور ان سے پہلے کے اور بعد کے منکرین نے ’’روایت بالمعنی‘‘ کو اس کی حقیقی شکل میں نہیں پیش کیا
[1] لسان المیزان ص ۲۱۲ ج ۲، ترجمہ ۹۶۱۶، الجرح و التعدیل ص ۲۲۴ ج ۹، ترجمہ ۱۶۴۱۴، المجروحین ص ۴۸۳ ج ۲، ترجمہ ۱۲۲۴ [2] لسان المیزان ص ۱۸۸ ج ۳، ترجمہ ۳۱۴۵، تاریخ البخاری الکبیر ص ۴۵۶ ج ۳، الصغیر ص ۷۸ ج ۲، تقریب التہذیب ترجمہ ۲۲۷۳