کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 26
میں کسی قوم کو نقصان پہنچا دو، پھر اپنے کیے پر پشیمان ہو۔‘‘
اس نہایت چھوٹی اور مختصر سی آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے راویان خبر کی جرح وتعدیل کا پورا قاعدہ بیان فرما دیا ہے اور کسی خبر کی صحت وسقم کو جانچنے کا اصول بتا دیا ہے۔ آیت میں مذکور ’’نبأ‘‘ (خبر) کا تعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات، افعال، سیرت پاک کے واقعات اور غزوات کی تفصیلات بیان کرنے سے بھی ہو سکتا ہے اور خود مسلمانوں اور ان کے درمیان پائے جانے والے غیر مسلموں کی نقل وحرکت اور اعمال سے بھی۔
آیت میں ’’تبینوا‘‘ تبین یتبین سے جمع مذکر کے امر کا صیغہ ہے یہ فعل بڑی وسعت رکھتا ہے جس کا اندازہ اس کے کثیر مترادفات سے کیا جا سکتا ہے مثال کے طور پر ’’تبینوا‘‘ کے مترادفات ہیں : ’’تثبتوا، تأکدوا، تحققوا، توثقوا اور تیقنوا‘‘
ارشاد الٰہی میں ’’فاسق‘‘ سے مراد ایسا شخص نہیں ہے جو مسلمان نہ ہو، بلکہ ایسا مسلمان مراد ہے جو عدالت کی صفت سے عاری ہو؛ محدثین نے ’’عدل‘‘ راوی کے اوصاف اس آیت کی روشنی میں بیان کیے ہیں ۔ میں محدثین کے ’’عدل‘‘ کے اوصاف بیان کر دیتا ہوں ۔ تاکہ فاسق کی صحیح تصویر پر سامنے آجائے جو عدل کی ضد ہے۔
’’عَدْلٌ‘‘ عَدُل یعدُلُ کا مصدر ہے جو صفت کے معنی میں ہے عربی میں مبالغہ کا مفہوم ادا کرنے کے لیے کبھی کبھار مصدر کو صفت کے طور پر استعمال کرتے ہیں ۔
عدُل یعدُلُ کرُم یکرُم کے باب سے ہے اس باب سے آنے والے افعال ’’لازم‘‘ ہوتے ہیں جو انسان کی طبعی اور فطری خصلتوں پر دلالت کرتے ہیں اس تناظر میں علمائے حدیث ’’عَدْل‘‘ اس راوی کو کہتے ہیں جو ایسے پاکیزہ نفسیاتی خصائل، اوصاف حمیدہ اور سیرت وکردار کی ایسی بلندی سے موصوف ہو جو اس کو تقویٰ کا پابند بنائے رکھے اور اس کو انسانیت سے گری ہوئی حرکتوں اور لوگوں کے ساتھ معاملات اور بات چیت اور حدیث رسول کی روایت ونقل میں دروغ گوئی اور کذب بیانی جیسی مذموم صفت سے باز رکھے۔
محدثین کی قبروں کو اللہ تعالیٰ قیامت تک روشن رکھے اور ان پر اپنی رحمتیں نازل فرماتا رہے کہ انہوں نے راویان حدیث کی عدالت میں کثرت صوم وصلوٰۃ اور روحانی ریاضتوں اور اور ادواز کار کے بکثرت ورد کو شمار نہیں کیا ہے، کیونکہ صحابہ، تابعین اور تبع تابعین کے بعد ان صفات میں جن بزرگوں کو شہرت حاصل ہوئی ان کی اکثریت روایت حدیث میں کذب بیانی سے موصوف تھی۔
علمائے حدیث نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث اور سنت کی عظمت واہمیت اور اس کے ماخذ شریعت ہونے کی وجہ سے راویان حدیث کی ثقاہت کے لیے ’’عدالت‘‘ کے ساتھ ضبط سینہ اور ضبط سفینہ سے موصوف ہونا بھی لازمی قرار دیا ہے۔ جس کا مفہوم یہ ہے کہ راوی حدیث ’’عدل‘‘ ہونے کے ساتھ عمدہ اور قوی حافظہ کا مالک ہو اور اگر حافظہ مطلوبہ معیار