کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 259
پہلی حدیث:…اصلاحی صاحب نے رویات بالمعنی کی مشروط اجازت پر جس حدیث سے استدلال کیا ہے اس کو حافظ بغدادی نے روایت بالمعنی کے جواز کی پہلی دلیل کے طور پر نقل کیا ہے، اس کے الفاظ ہیں : ولید بن سلمہ فلسطینی -طبرانی ازدی- سے روایت ہے مجھے یعقوب بن عبداللہ بن سلیمان بن اکیمہ لیثی نے اپنے باپ عبداللہ سے اور انہوں نے ان کے دادا سلیمان بن اکیمہ سے روایت کرتے ہوئے خبر دی، انہوں نے کہا: ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! ہمارے ماں باپ آپ پر قربان، ہم حدیث سنتے ہیں ، اور اس کو جس طرح سنتے ہیں اس طرح اس کو بیان کرنے پر قدرت نہیں رکھتے، فرمایا: ((إذا لم تحلوا حرامًا و لا تحرموا حلالًا فلا بأس)) ’’اگر تم حرام کو حلال اور حلال کو حرام نہ کرو، تو کوئی حرج نہیں ہے۔‘‘ یہ حدیث نہیں جھوٹ ہے اس کی روایت طبرانی نے ’’المعجم الکبیر‘‘ میں ابو نعیم نے ’’المعرفۃ‘‘ میں اور حسین بن ابراہیم جوزقانی نے ’’الاباطیل و المناکیر ‘‘ میں کی ہے اور اس کے راوی ولید بن سلمہ کے کذاب ہونے کی وجہ سے اس کو باطل قرار دیا ہے۔ امام ابو حاتم، امام ابو زرعہ، امام ابن حبان، امام دارقطنی اور امام عقیلی وغیرہ نے اس کو متروک، کذاب، حدیث گھڑنے والا اور منکر الحدیث قرار دیا ہے۔[1] الکفایہ میں اس حدیث کی صحت و سقم کے بارے میں کچھ نہیں لکھا گیا ہے۔ بغدادی نے اس باب اور دوسرے ابواب کے تحت جو مرفوع حدیثیں اور صحابہ اور محدثین کے جو اقوال نقل کیے ہیں ان میں اکثر موضوع اور باطل ہیں ، خود روایت بالمعنی سے متعلق انہیں دونوں ابواب میں انہوں نے جو حدیثیں اور اقوال و آثار نقل کیے ہیں ان میں سے بیشتر ثابت نہیں ہیں اور اصلاحی صاحب چونکہ اس علم سے بالکل نابلد تھے اس لیے انہوں نے آنکھیں بند کر کے اس سے حدیثیں اور آثار نقل کر لیے ہیں اور انہیں پر اپنے استدلالات کا قصر تعمیر کا ڈالا ہے۔ دوسری حدیث:…اصلاحی صاحب نے روایت بالمعنی کی مشروط اجازت پر جس دوسری حدیث سے استدلال کیا ہے اس کے الفاظ ہیں : ((سأل رجل النبی صلي اللّٰه عليه وسلم فقال: یا رسول اللہ! إنک لتحدثنا حدیثًا لا نقدر ان نسوقہ کما نسمعہ، فقال: إذا أصاب أحدکم المعنی فلیحدث)) ’’ایک شخص نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کرتے ہوئے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! درحقیقت آپ ہم سے ایسی حدیثیں بیان کرتے ہیں ، جن کو ہم اس طرح نقل کرنے پر قدرت نہیں رکھتے جس طرح ہم انہیں سنتے
[1] المجعم الکبیر ، نمبر ۶۲۹۱۔ المعرفۃ ، نمبر ۳۳۶۶۔ الاباطیل والمناکیر، نمبر ۹۲۔ الضعفاء و المجروحین ص ۴۲۲ ج ۲، ترجمہ ۱۱۳۶، لسان المیزان ص ۱۳۱ ج ۲، ترجمہ ۹۳۸۰، الجرح و التعدیل ص ۹ ج ۹، ترجمہ ۱۵۶۸۲۔