کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 258
حدیث کے جذبے سے بڑھا چڑھا کر بیان کرتے ہیں اور میں نے اس مسئلہ کو جس تفصیل سے بیان کر دیا ہے انصاف پسندوں کے لیے وہ کافی ہے۔ چوتھا دعویٰ: یہ دعویٰ خلط مبحث کا شاہکار ہے، اصلاحی صاحب نے اولاً تو حدیث کی ساری قسموں کو خلط ملط کر دیا، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے ان کے صدور کی ایسی تصویر کشی کی ہے، گویا آپ ہمیشہ بڑے بڑے مجمعوں اور جلسوں میں رہتے تھے اور آپ کے اقوال کو ہزاروں افراد سنتے تھے جن کے لیے ان کو اپنے لوح قلب پر نقش کرنا ممکن نہیں تھا۔ اسی طرح آپ کے افعال کا مشاہدہ کرنے والے بھی ہزاروں ہوتے تھے جن کے لیے ان افعال کا استحضار بعید از امکان تھا۔ دعویٰ نمبر ایک پر میں نے جو بھرپور تبصرہ کیا ہے اس میں اس چوتھے دعوی کا مفصل جواب موجود ہے۔ پانچواں دعویٰ: امین اصلاحی کا یہ دعوی مبنی برحق ہے جو حدیث کے بارے میں ان کی تمام تشکیکی کوششوں پر خط تنسیخ پھیر دیتا ہے۔ چھٹا دعویٰ: یہ دعویٰ بھی ایسا ہے جو ’’روایت باللفظ‘‘ کی اہمیت سے متعلق ان کی تمام ’’تاکیدات‘‘ کو کالعدم کر دیتا ہے اور اس کے برعکس یہ یقین دہانی کرا رہا ہے کہ حدیث کی حفاظت کے لیے ’’روایت باللفظ‘‘ کی عدم پابندی ضروری اور لازمی تھی۔ ساتواں دعویٰ: یہ منکرین حدیث کا روایتی دعویٰ ہے۔ قرآن کے ذریعہ حدیث کے نقص، کمزوری، عیب اور خلا کی نشاندہی اور پھر اصلاح کی باتیں انکار حدیث کی تاریخ سے جڑی ہوئی ہیں ۔ میں نے صحیح بخاری کی بعض احادیث پر اصلاحی اور غزالی کے اعتراضات کا جو مفصل جواب دیا ہے اس سے منکرین حدیث کے فہم قرآن اور فہم حدیث دونوں کی حقیقت سمجھی جا سکتی ہے۔ اعادہ لاطائل ہو گا، اور ’’عملی سنت‘‘ پر بھی روشنی ڈال چکا ہوں ۔ آٹھواں دعویٰ: یہ دعویٰ باطل اور ناقابل التفات ہے؛ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے احادیث کی مشروط یا غیر مشروط ’’روایت بالمعنیٰ‘‘ کی قطعاً کوئی اجازت نہیں دی ہے اصلاحی صاحب نے بغدادی کی نقل کردہ جن احادیث کی بنیاد پر یہ دعویٰ کیا ہے وہ حدیث نہیں جھوٹ ہیں ، تعجب ہوتا ہے کہ جس شخص نے اکابر محدثین پر ناقابل اعتبار بدعتیوں سے حدیث روایت کرنے اور لینے کا الزام لگا کر ان کو امت میں جھوٹی روایات پھیلانے کا ذمہ دار قرار دے ڈالا ہے وہ الکفایہ کے صرف ۶ صفحات پر منقول احادیث و آثار کی صحت و سقم معلوم کرنے سے قاصر تھا، یہی تمام منکرین حدیث کا حال رہا ہے اور آئندہ رہے گا، حدیث بیزاری نور بصیرت سلب کر لیتی ہے۔