کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 257
حاصل کلام: حاصل کلام یہ کہ قرآن کی طرح اور اس کے بالکل مساوی حدیث بھی شرعی ماخذ ہے، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ ہی کی اطاعت کی طرح رسول کی اطاعت بھی فرض ہے اور خود اللہ تعالیٰ کے فرض کرنے سے فرض ہے اور یہ فرضیت اس امر کی متقاضی ہے کہ وہ چیز بھی محفوظ ہو جس میں رسول کی اطاعت اور اتباع فرض ہے، کیونکہ قرآن کی اطاعت اللہ کی اطاعت ہے رسول کی اطاعت نہیں ، رسول کی اطاعت اس کے قول و فعل اور اس کے اوامر و نواہی کی تعمیل سے عبارت ہے جو قرآن کے علاوہ ہیں ۔ تیسرا دعوی: اس دعوی اور اس کے مضمرات کی دھجیاں میں حفاظتِ حدیث کی بحث میں دلائل و براہین سے بکھیر چکا ہوں اور یہ واضح کر چکا ہوں کہ حدیث کی حفاظت کے ساتھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے جو اہتمام برتا ہے وہ حفاظت قرآن کے ساتھ ان کے اہتمام سے کم نہیں زیادہ تھا، یہی حال تابعین اور تبع تابعین کے دور میں بھی رہا اور یہ بھی بیان کر چکا ہوں کہ حدیث بھی وحی ہے اور اس کو بھی نازل کرنے والے جبریل علیہ السلام اور ان کے ساتھ دوسرے فرشتے تھے۔ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک حدیث کی تشریعی حیثیت قرآن کی تشریعی حیثیت سے کچھ کم نہیں تھی۔ رہی قرآن پاک کی کتابت جس کو منکرین حدیث بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں تو نزول قرآن کے زمانے میں اس کی حقیقت اس کے سوا کچھ اور نہیں تھی کہ بعض صحابہ نازل ہونے والی آیتوں اور سورتوں کو متفرق شکل میں لکھ لیا کرتے ان کا یہ عمل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علم میں تو ضرور تھا، مگر آپ نے اس کا حکم نہیں دیا تھا، کیونکہ کسی صحیح حدیث میں اس کا ذکر نہیں آیا ہے۔ قرآن کے لکھے ہوئے متفرق اجزا کا اس کی حفاظت میں اس کے علاوہ کوئی کردار نہیں رہا کہ اگر ضرورت پڑی تو ان سے رجوع کیا جا سکتا ہے، لیکن ایسی ضرورت کبھی بھی نہیں پڑی، اور حدیث کی طرح قرآن بھی سینہ بسینہ منتقل ہوتا رہا، اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں قرآن پاک کا جو ایک نسخہ تیار کیا گیا اور اس کے بعد عثمان رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں اس کے جو سات نسخ تیار کیے گئے۔ وہ نہ عام لوگوں کے پڑھنے کے لیے تھے نہ پڑھے گئے اور نہ پڑھے جا سکتے تھے اس لیے کہ صحابہ کی اکثرت امی تھی اور ان میں لکھنے پڑھنے والے لوگ انگلیوں پر گنے جا سکتے تھے، ان کے امی ہونے کی شہادت خود قرآن نے دی ہے۔ درحقیقت قرآن کے ہر آمیزش سے محفوظ رہنے کا سبب اس کا اعجاز ہے۔ تابعین کے دور میں بھی یہی حال رہا اور امر واقعہ اس بات کی گواہی دے رہاہے کہ اگر اسی ۸۰ اور ۹۰ سالہ دور میں قرآن پاک کے کچھ نسخے تیار بھی ہوئے ہوں گے تو وہ لاکھوں مسلمانوں کے پڑھنے کے لیے کافی نہیں تھے۔ دراصل منکرین حدیث قرآن کے ساتھ صحابہ اور تابعین کے اہتمام کو حبِ قرآن کے جذبے سے نہیں ۔ بغض