کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 256
نمازوں میں اور ان سے باہر اس کی تلاوت اللہ تعالیٰ کی محبوب عبادت ہے۔ تو ان کا یہ دعویٰ سو فیصد حق ہے جس کا انکار کفر ہے۔ اب رہی قرآن و حدیث کے کام کی نوعیت اور دین میں ان دونوں کا مقام و حیثیت تو میرے خیال میں قرآن و حدیث کا معمولی سا طالب علم بھی یہ جانتا ہو گا کہ اس میں خود قرآن پاک کی رو سے ادنیٰ سا بھی فرق نہیں ہے، دونوں کے کام کی نوعیت بھی ایک ہے اور دین میں دونوں کا مقام اور حیثیت بھی ایک۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی اسی کتاب عزیز میں بار بار اور مختلف اسلوبوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا واجب الاطاعت رسول، ہادی، معلم، مربی، آمر و ناہی، محلل و محرم، حاکم و قاضی اور شارع قرار دیا ہے اور خود اصلاحی صاحب کے اعتراف سے ’’آپ امت کے لیے اسوۂ کامل اور آئیڈیل ہیں اور آپ کی تو آنکھوں کی گردش اور لقمہ اٹھانے تک بھی امت کے لیے نمونہ ہے۔‘‘ [1]تو کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ان تمام حیثیتوں کو تسلیم کر کے ان کے مطابق آپ کی اطاعت و اتباع کرنا حدیث کی تشریعی حیثیت کو قرآن کی تشریعی حیثیت کے بالکل مماثل اور مساوی مانے بغیر ممکن ہے؟ میرا یہ عقیدہ ہے کہ ممکن نہیں ہے، اس لیے کہ اس سے اللہ کی تکذیب ہوتی ہے، اگر اصلاحی اور برنی کا دعویٰ ہے کہ میرا یہ عقیدہ غلط ہے تو قرآن پاک کی کسی ایک ہی آیت سے اس کو بیان کر دیں ، قرآن سے باہر کی کوئی دلیل ناقابل قبول ہے۔ اگر وہ یہ کہیں کہ قرآن تو سورۂ فاتحہ سے سورۂ ناس تک مرتب شکل میں محفوظ ہے اور اس کا ایک لفظ بھی ضائع نہیں ہوا ہے تو ہم کہیں گے کہ قرآن کے اس شکل میں محفوظ ہونے ہی کا یہ لازمی تقاضا ہے کہ حدیث بھی محفوظ رہے اور اس کے محفوظ رہنے کی یہ شرط قطعاً نہیں ہے کہ وہ بھی دو دفتیوں کے درمیان محفوظ ہو، بلکہ وہ اس لیے محفوظ ہے کہ اسلامی شریعت قرآن اور حدیث سے عبارت ہے اور جب قرآن محفوظ ہے تو لازماً حدیث بھی محفوظ ہے۔ اگر وہ یہ کہیں کہ قرآن تو ہر ملاوٹ اور آمیزش سے پاک ہے، لیکن حدیث میں غیر حدیث بھی شامل ہو گئی ہے تو ہم کہیں گے کہ بلاشبہ حدیث میں غیر حدیث بھی شامل ہو گئی ہے۔ لیکن اس کے باوجود صحیح حدیث محفوظ ہے، ورنہ رسول کی اطاعت و اتباع کا الٰہی حکم ناقابل تعمیل ہو گا اور اللہ تعالیٰ کے بارے میں یہ اعتقاد کہ وہ ناقابل تعمیل حکم بھی دیتا ہے کفر ہے اور صحیح احادیث جاننے والے ہر زمانے میں موجود تھے اور موجود رہیں گے۔ اگر وہ کہیں کہ صحیح احادیث کا علم رکھنے والے اور ان کو من گھڑت اور جھوٹی روایتوں سے سے الگ کرنے والے ہر زمانے میں بہت کم رہے ہیں تو ہم کہیں گے کہ جس طرح قرآن پاک کے سمجھنے والوں کی قلت سے اس کے ’’کتاب مبین‘‘ ہونے پر حرف نہیں آتا اسی طرح صحیح حدیث کا علم رکھنے والوں کی قلت سے صحیح احادیث کے موجود ہونے اور محفوظ ہونے پر کوئی زد نہیں پڑتی۔
[1] ص ۱۰۱، فقرہ نمبر ۲