کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 255
اختیار فرمائی ہے۔
اسی طرح موسیٰ علیہ السلام کی لاٹھی کے بطور ’’آیت‘‘ سانپ بن جانے کے واقعہ کو بیان کرتے ہوئے کہیں ’’ثعبان‘‘ کہیں ’’حیۃ‘‘ اور کہیں ’’جان‘‘ کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں ، موقع و محل ایک ہے، البتہ ہر جگہ اس ’’معجزاتی‘‘ سانپ کی صفت مختلف ہے۔
موقع و محل اور سیاق و سباق کے تقاصوں کے مطابق بیان میں اختلاف کی مثالوں میں سورۂ بقرہ کی آیت نمبر ۶۲، سورۃ مائدہ کی آیت نمبر ۶۹ اور سورۂ حج کی آیت نمبر ۱۷ پیش کی جا سکتی ہے۔ ان آیتوں میں الفاظ میں کمی بیشی، اعراب اور اختتام ہر چیز میں اختلاف ہے، یعنی بادی النظر میں ، ورنہ حقیقت میں کوئی اختلاف نہیں ہے اور قرآن و حدیث ایک ہی چشمۂ نور سے نکلے ہیں ، یعنی ’’نور وحی‘‘ لہٰذا نہ قرآن حدیث کے خلاف ہے اور نہ حدیث قرآن کے، اسی طرح نہ قرآن کے اندر اختلافات ہیں اور نہ حدیث کے اندر۔
دوسر ا دعویٰ:
اصلاحی صاحب نے یہ دعویٰ یا تو نیم بیداری اور نیم خواب کی حالت میں کیا ہے یا ان کا عقیدہ یہی ہے۔ میرا خیال یہ ہے کہ یہ ان کا عقیدہ نہیں ہو گا، لیکن حدیث سے ان کی بیزاری نے ان کے قلب و نگاہ پر پردہ ڈال دیا ہے۔ وہ تدبر حدیث کے اصول و مبادی بیانی کر رہے ہیں ایسے موقعوں پر اہل علم جہاں الفاظ ناپ تول کر استعمال کرتے ہیں وہیں کوئی بات گول مول کہنے کے بجائے نہایت واضح الفاظ میں کہتے ہیں اور ان کی تشریح بھی کر دیتے ہیں ، ضرورت پڑنے پر مثالوں سے اپنی بات کومدلل بھی کر دیتے ہیں ۔
ان کے خلیفہ ڈاکٹر برنی کے مضامین اور دعووں کی روشنی میں اصلاحی صاحب کے اس قول: ‘‘قرآن و حدیث‘‘ کے کام کی نوعیت اور دونوں کے مقام اور حیثیت میں بڑا فرق ہے ‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ دونوں کا تشریعی مقام و مرتبہ ایک نہیں ہے۔میرے لیے پریشانی یہ ہے کہ میں ان کے دعووں کو پہلے درست کرتا ہوں ، واضح کرتا ہوں ، پھر ان کا جواب دیتا ہوں ۔ یہ دونوں بزرگ اور ان کے ہمنوا چونکہ اللہ تعالیٰ کے کلام سے اپنی جھوٹی محبت کا بڑا دم بھرتے ہیں اور اس کے غم میں مگر مچھ کے آنسو بہاتے رہتے ہیں ۔ لہٰذا ان دونوں کو خاص طور پر اصلاحی صاحب کو قرآن و حدیث کے کام کی نوعیت اور حیثیت میں اس ’’بڑے فرق‘‘ کو بیان کرنا اور متعین کرنا فرض تھا۔ یہ دین کا ایسا بنیادی مسئلہ ہے جس کے ماننے پر ایمان اور انکار پر کفر لازم آتا ہے۔ ایسی صورت میں گول مول باتوں سے اپنے قارئین اور پیروکاروں کو ’’گو مگو‘‘ کی حالت میں رکھنا ایک مفسر قرآن اور ’’تدبر حدیث‘‘ کے اصول سمجھانے والے کے شایان شان نہیں ہے۔
اگر ان کا اور ان کے ہم مسلک دوسرے لوگوں کا دعویٰ ہے کہ قرآن کلام الٰہی ہے، اس کا ہر ہر لفظ اللہ تعالیٰ کا نازل کردہ ہے اور یہ ایسا معجزاتی کلام ہے جس کے مانند کوئی کلام گھڑنا اور تالیف کرنا جن و انسان کے بس سے باہر ہے،