کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 254
تبصرہ پہلا دعویٰ: علمی اور اصولی بحثوں میں الفاظ ناپ تول کر استعمال کیے جاتے ہیں ۔ اصلاحی صاحب نے اپنی جس کتاب میں یہ دعویٰ کیا ہے اس کا عنوان ہے ’’مبایٔ تدبر حدیث‘‘ اس عنوان کا تقاضا تھا کہ وہ یہ دعویٰ کرنے سے پہلے نہایت واضح اور صریح لفظوں میں یہ بتاتے کہ حدیث کا آدھے سے زیادہ حصہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے افعال، تقاریر -تصویبات- مغازی اور شمائل مظہر پر مشتمل ہے جن کے نقل و روایت میں الفاظ کی پابندی یا عدم پابندی بے معنی ہے اور آدھے سے کم حدیث کا جو حصہ ہے اس میں بھی کثیر تعداد میں ایسی حدیثوں کو مستثنیٰ کیا جا سکتا ہے، جو ہیں تو قول رسول، مگر ان کا تعلق یا تو قرآنی احکام کی تشریح و تبیین سے ہے یا عام ہدایات سے اس تناظر میں اگر راوی سے ان کی روایت کرتے ہوئے بعض الفاظ تبدیل ہو جائیں یا ان میں تقدیم و تاخیر ہو جائے تو ان کا مقصود متاثر نہیں ہوتا۔ پھر یہ بات بھی ذہن سے اوجھل نہیں ہونی چاہیے کہ قرآن کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم معلم کتاب و سنت بھی تھے، امت کے مربی بھی اور صحابہ کے اندر پیدا ہونے والے تنازعات کا فیصلہ کرنے والے حاکم اور قاضی بھی اور آپ کے فیصلوں کو دوسروں سے بیان کرتے وقت نہ آپ کے لیے الفاظ کو بیان کرنا ضروری تھا اور نہ ہی عملی تھا۔ اب رہی وہ احادیث جن کا تعلق اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات کے بیان سے ہے، یا غیبی امور کی خبروں سے، یا نمازوں اور دوسری عبادتوں میں پڑھی جانے والی دعاؤں سے یا عام اذکار و اوراد سے، یا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے سوالوں کے جواب سے تو ایسی حدیثیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ میں بیان ہوئی ہیں ۔ اگر ان میں کوئی اختلاف ملتا ہے تو یہ نتیجہ ہے اس بات کا کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف اوقات میں مختلف صحابہ رضی اللہ عنہم سے فرمائی ہیں اور ان میں تنوع مقصود بھی ہے اور اگر آپ نے ایک ہی طرح کے سوال کا مختلف جواب دیا ہے تو ایسا دراصل ہر سائل کے سوال کا مقصود سمجھ کر کیا ہے۔ اس کو سمجھنے کے لیے تشہد اور درود کے کلمات اور ایمان و اسلام سے متعلق سوال کے جوابات سے مدد لی جا سکتی ہے، ایسے اختلافات نہ تو راویوں کی بھول کا نتیجہ ہیں اور نہ روایت حدیث میں ان کے تصرفات کا اور نہ ان سے ’’روایت بالمعنیٰ‘‘ کے جواز پر استدلال کرنا ہی درست ہے۔ رہا بعض حدیثوں میں مترادفات کا استعمال تو اس کی مثال خود قرآن پاک میں ایک ہی بات کے بیان میں موجود ہے، جبکہ موقع و محل ایک ہے۔ قرآن میں مترادفات کا استعمال: قرآن پاک کی سورۂ بقرہ آیت نمبر ۶۰ میں اللہ تعالیٰ نے پتھر سے پانی کے چشمے پھوٹ نکلنے کے لیے ’’انفجرت‘‘ کی تعبیر اختیار فرمائی ہے اور بالکل اسی موقع و محل میں سورۂ اعراف آیت نمبر ۱۶۰ میں اس کے لیے ’’انبجست‘‘ کی تعبیر