کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 253
اصلاحی صاحب کے خلیفہ ڈاکٹر برنی نے بھی اس فقرے کی باتیں دہرائی ہیں ، اصلاحی صاحب تو عربی داں تھے، مفسر قرآن تھے ان کو یہ دعویٰ کرنے کا کسی حد تک تو حق تھا۔ مگر برنی موطا کی ایک سطری عبارت پڑھ بھی نہیں سکتے، پھر انہوں نے بھی یہ دعویٰ کیوں کر ڈالا؟
میں ’’تدبر حدیث‘‘ کے اس باب کے مندرجات پر ایک ایک کر کے تبصرہ کروں گا، کیونکہ اصلاحی مکتبہ فکر سے وابستگی رکھنے والوں کے نزدیک ان کی حیثیت آئین سے کم نہیں ، لیکن پہلے میں ان کے ’’فرمودات‘‘ کا خلاصہ کر دینا چاہتا ہوں ، پھر ہر ہر بات کا ما لہ اور ما علیہ بیان کروں گا۔ میں اوپر یہ بیان کر چکا ہوں کہ اصلاحی صاحب محدثین پر تنقید کرنے سے پہلے کچھ دعوے کرتے ہیں ۔ کچھ باتیں امر واقعہ کے برعکس بیان کرتے ہیں اور کچھ باتوں کو ’’ہوَّا‘‘ بنا کر پیش کرتے ہیں ، پھر انہی پر اپنی ہرزہ سرائیوں کا قصر تعمیر کرتے ہیں ۔
روایت بالمعنی کے دعاوی ایک نظر میں :
۱۔ ذخیرۂ احادیث کا بہت بڑا حصہ روایت باللفظ کے بجائے روایت بالمعنی کے ذریعہ منقول ہے۔
۲۔ قرآن و حدیث کے کام کی نوعیت اور مقام و حیثیت میں بڑا فرق ہے۔
۳۔ قرآن کی حفاظت میں جبریل، نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور کاتبین وحی تینوں کی کوششیں شامل رہی ہیں ۔
۴۔ حدیث نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ان اقوال، افعال اور تصویبات سے عبارت ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سفر و حضر کے دوران ہزاروں صحابہ کے درمیان ظاہر ہوتے تھے۔
۵۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم امت کے لیے کامل نمونہ ہیں اور آپ کی آنکھوں کی گردش اور لقمہ اٹھانے کا انداز تک بھی امت کے لیے نمونہ ہے۔
۶۔ احادیث کی ’’روایت باللفظ‘‘ کی پابندی سے علم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پچانوے حصہ کے غائب ہو جانے کا اندیشہ تھا، جو امت کے لیے عظیم سانحہ ہوتا۔
۷۔ روایت باللفظ کی ضرورت بھی نہیں تھی، اس لیے کہ قرآن کی کسوٹی موجود ہے۔ اگر حدیث میں کوئی نقص رہ جاتا تو اس کو قرآن مجید اور ’’سنت عملی‘‘ کی کسوٹی پر رکھ کر درست کیا جا سکتا تھا۔
۸۔ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض شرائط کے ساتھ ’’روایت بالمعنی‘‘ کی اجازت دی ہے۔
۹۔ روایت بالمعنی راویوں کی صوابدید پر مبنی ہے کہ ان میں سے کون مطلب میں تبدیلی لائے بغیر یہ کام کر سکتا ہے۔
۱۰۔ صحیح روایت بالمعنی کے لیے راوی کا ’’ذہین‘‘ ہونا ضروری ہے۔
۱۱۔ ’’روایت باللفظ‘‘ کا سب سے زیادہ اہتمام امام مالک رحمہ اللہ نے کیا ہے مؤطا میں کلام نبوی کی شان نظری آتی ہے۔[1]
[1] ص ۱۰۱-۱۱۲