کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 252
ہی سے منسوب تھے، مگر ان کے عقائد اور اعمال کا بڑا حصہ کتاب و سنت سے ماخوذ نہیں تھا۔ بلکہ ان کا اپنا وضع کردہ تھا، یا ان کا ماخذ یونانی اور ہندوستانی فلسفہ تھا۔ یا اہل کتاب کے راہبوں ، ہندو سادھوؤں اور بدھ بھکشؤوں کے عقائد، عبادات اور روحانی ریاضتوں سے ماخوذ تھا۔ ان جھوٹی اور بے بنیاد روایتوں کو گھڑنے اور رواج دینے میں اہل تصوف نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ ہمارے اکابر محدثین نے تو احادیث کے ذخیرے سے ان جھوٹی روایتوں کو نکالنے اور چھانٹنے کا کام کیا ہے۔
روایت بالمعنیٰ کا ہوّا:
اصلاحی صاحب نے بزعم خویش حدیث میں صدق و کذب کے پہچاننے اور پرکھنے کے اصول بیان کرتے ہوئے حدیث کی سند میں جو خلا دکھانے کی کوشش کی تھی اور جس کو ان کے خلیفہ نے سند کی کمزوریوں سے تعبیر کیا ہے، ان میں سے ہر خلا اور ہر کمزوری کا جواب دلائل کی زبان میں دے دیا گیا ہے، ان کی نظر میں حدیث کے صدق و کذب کے فیصلے میں سند کی طرح حدیث کا متن بھی بڑی اہمیت رکھتا ہے جس کو بیان کرنے کے لیے انہوں نے ایک باب ’’روایت بالمعنیٰ اور اس کے مضمرات‘‘ کے عنوان سے قائم کیا ہے، فرماتے ہیں :
’’اب ہم متن حدیث پر بحث کریں گے، تاکہ اس کے بعض کمزور پہلؤوں کی نشاندہی کی جائے اور وہ فطری طریقے تجویز کیے جائیں جو تحقیق حق میں معین ثابت ہو سکتے ہیں ۔‘‘
اس باب کے تحت بھی ان کا سارا مدار حافظ خطیب بغدادی کی کتاب الکفایہ کے باب: ذکر الحجۃ فی اجازۃ الحدیث بالمعنی و باب ذکر من کان یذہب الی اجازۃ الروایۃ علی المعنی پر ہے۔
انہوں نے روایت بالمعنی کی مشروط اجازت کے زیر عنوان دو مرفوع حدیثیں ، تین موقوف روایتیں اور تین مقطوع روایتیں نقل کی ہیں جن میں سے دونوں مرفوع حدیثیں اور دونوں دو موقوف روایتیں تو جھوٹ ہیں ، صرف انس بن مالک رضی اللہ عنہ کا موقوف اثر صحیح ہے جو زیر بحث موضوع سے غیر متعلق ہے۔ یہی حال مقطوع روایتوں کا بھی ہے ان سب کی استنادی حیثیت میں بعد میں واضح کروں گا۔
اصلاحی صاحب نے روایت بالمعنی میں غلطی کا احتمال کے زیر عنوان براء بن عازب رضی اللہ عنہ کی جو حدیث نقل کی ہے وہ روایت بالمعنی کی مشروط اجازت کے ان کے دعویٰ کو باطل کر دیتی ہے اور اس حدیث کی ایک تعبیر کی انہوں نے جو توجیہ فرمائی ہے وہ ان کے فہم قرآن کا بھی مذاق اڑا رہی ہے۔
اس باب کے آخری فقرے کا عنوان ہے: ’’روایت باللفظ کا اہتمام‘‘ اس کے تحت انہوں نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ امام مالک رحمہ اللہ کے نزدیک روایت بالمعنی جائز نہیں تھی جس کی انہوں نے بڑی حد تک رعایت کی ہے اور یہ شان موطا میں فی الجملہ نظر آتی ہے اسے پڑھیے تو جگہ جگہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام کی شان نظر آتی ہے۔[1]
[1] ص ۱۱۲