کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 251
وضاحت:
جس ضعیف حدیث کا ضعف شدید نہ ہو ایسی ضعیف حدیث ہے جس کی روایت میں کوئی ایسا راوی منفرد نہ ہو جس کا شمار جھوٹوں ، اور کذب بیانی کے ملزموں میں ہوتا ہواور اسی طرح وہ روایت میں بے تحاشا غلطیوں کا مرتکب بھی نہ ہوتا رہا ہو، اس پر خلیل بن کیکلدی علائی متوفی ۷۶۱ھ نے علمائے حدیث کا اتفاق نقل کیا ہے۔ [1]
سخاوی نے القول البدیع میں ان شرائط کو قدرے تفصیل سے بیان کیا ہے:
۱۔ ضعیف حدیث پر اس اعتقاد سے عمل نہ کیا جائے کہ وہ ثابت ہے، بلکہ ازراہ احتیاط عمل کیا جائے۔
۲۔ ضعیف حدیث کا موضوع اعمال کے فضائل ہوں (یعنی ایسے اعمال کے فضائل جو شرعاً ثابت ہوں اور یہ فضائل صحیح حدیث میں بیان کردہ فضائل سے کچھ زیادہ ہوں ، ورنہ بصورت دیگر عمل کرنے والا مبتدع قرار پائے گا۔
۳۔ ضعیف حدیث پر عمل کرنے والا اس کو مشتہر نہ کرے تاکہ وہ ایسے عمل کو شرعی حیثیت دینے والا نہ قرار پائے جو مشروع نہیں ہے۔
۴۔ کوئی صحیح حدیث اس ضعیف حدیث کی مخالف نہ ہو۔
۵۔ ضعیف حدیث پر عمل کرنے والا یہ اعتقاد نہ رکھے کہ وہ اپنے اس عمل کے ذریعہ سنت پر عمل پیرا ہے۔[2]
ان شرائط کی روشنی میں ضعیف حدیث پر عمل ’’عبث‘‘ قرار پاتا ہے قطع نظر اس کے کہ اس کا تعلق فضائل سے ہے یا عقائد اور احکام سے اور اگر اس کے ساتھ یہ بات بھی شامل کر لی جائے کہ ضعیف حدیث کے درجات اور اس کے ضعف کے اسباب معلوم کرنے کے لیے جن علوم میں مہارت درکار ہے ان سے حدیث کا علم رکھنے والوں میں بھی بہت کم لوگ بہرہ ور رہے ہیں ، اور ہیں اور آئندہ رہیں گے، لہٰذا مناسب یہی ہے کہ جن حدیثوں کو معتبر علمائے حدیث نے ضعیف قرار دے دیا ہے ان سے دور رہا جائے اور اگر کسی ضرورت سے ان کا ذکر کیا بھی جائے تو ان کو یقینی صیغوں میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرنے کے بجائے اس طرح کی تعبیریں اختیار کی جائیں : روایت ہے، بیان کیا جاتا ہے، روایت میں آیا ہے وغیرہ۔
نتیجہ بحث:
اصلاحی صاحب اور برنی صاحب نے اکابر محدثین، خاص طور پر امام اہل سنت و جماعت: امام احمد بن حنبل پر امت میں جھوٹی روایات کے پھیلنے کے اسباب فراہم کرنے کا جو الزام لگایا تھا میں نے گزشتہ صفحات میں اس کی حقیقت بیان کر دی ہے جس پر ایک نظر ڈال کر قارئین یہ یقین حاصل کر سکتے ہیں کہ امت میں جھوٹی اور بے بنیاد روایات کے پھیلنے اور پھیلانے میں ان اکابر کا کوئی ہاتھ نہیں رہا ہے، بلکہ یہ کام ان گمراہ فرقوں نے انجام دیا ہے جو اسلام اور مسلمانوں
[1] یحییٰ معلمی: مجموع الرسائل الحدیثیہ: ۱۶۴
[2] ص ۲۵۸