کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 250
گہری نظر کے باوجود انہوں نے ضعیف حدیث پر عمل سے متعلق جس نقطۂ نظر کا اظہار کیا، اس نے ضعیف اور ساقط روایتوں کو ماخذ شریعت بنانے والوں کے ’’مشن‘‘ کو شرعی رنگ دے دیا اور ضعیف حدیث پر عمل کی کوئی شرط نہ بیان کر کے اہل بدعت صوفیا کے لیے ضعیف حدیث کی ہر قسم پر عمل کے دلائل فراہم کر دیے، جبکہ اس مسئلہ میں بعض علماء نے صرف ایسی ضعیف حدیث پر عمل سے متعلق سہل انگاری کا اظہار کیا تھا جو بہت زیادہ ضعیف نہ ہو، جیسا کہ آگے بیان کروں گا۔ نووی کے بعد جو لوگ آئے ان میں اس مسلک اور نقطۂ نظر کے حامی انہی کے خرمن کے خوشہ چین تھے اور ان کی اکثریت کی وجہ سے ضعیف حدیث پر عمل کے خلاف آواز اٹھانے والوں کی آواز نقار خانے میں طوطی کی آواز ’’ثابت ہو رہی تھی، اس لیے کہ اس وقت ہر جگہ صوفیا کی کثرت ہو چکی تھی اور ان کے عقائد سے لے کر تزکیۂ نفس کے اعمال تک تقریباً ہر چیز خود ساختہ اور من گھڑت تھی جس کو شرعی رنگ دینے کے لیے ضعیف حدیثوں سے استدلال عام ہوتاچلا گیا، اس پر ستم بالائے ستم یہ ہوا کہ موضوع، باطل اور منکر روایتیں بھی ’’ضعیف‘‘ کے نام سے شرعی اعمال کا ماخذ بنا لی گئیں اور میں نے اوپر ضعیف کی جو مردود قسمیں گنوائی ہیں وہ منظر سے غائب ہو گئیں ۔ حافظ ابن حجر کا کارنامہ: حافظ ابن حجر متوفی ۸۵۲ھ متقدمین اور متاخرین علمائے حدیث کے علوم کے جامع، تقریباً تمام مستند و غیر مستند کتب حدیث سے مطلع، صحیح بخاری کے رمز شناس اور منفرد شارح، اور علوم الحدیث کی باریکیوں پر گہری نظر رکھنے والے ایسے محدث اور حافظ حدیث گزرے ہیں جن کی عظمت کے قائل ان کے حامیوں سے پہلے ان کے مخالفین ہیں ۔ ان کے عہد میں عقائدی اور عملی بدعتوں کا زور تھا، مسلکی تعصب اپنی انتہا کو پہنچ چکا تھا، صوفیا نے جھوٹی اور بے بنیاد روایتوں کا انبار لگا دیا تھا ایسے وقت میں انہوں نے ضعیف حدیث پر عمل کی ایسی شرائط وضع کیں جو متقدمین ائمہ حدیث کی آراء کی ترجمان اور کتاب و سنت کی تعلیمات کی غماز تھیں ، انہوں نے اس مسئلہ میں فضائل اعمال اور ضعیف حدیث دونوں کا تعین کر کے ان ناعاقبت اندیشوں کی من مانیوں کے سامنے آہنی بند باندھ دیا جو علی الاطلاق ضعیف حدیثوں کو ماخذ شریعت بنائے ہوئے تھے۔ حافظ سخاوی حافظ ابن حجر کے شاگرد تھے، انہوں نے ’’الفیہ العراقی‘‘ کی اپنی شاہکار شرح ’’فتح المغیث‘‘ میں مختصراً اور القول البدیع میں تفصیلاً اپنے شیخ کی وضع کردہ یہ شرائط بیان کی ہیں ، فتح المغیث میں چند علماء کے اقوال نقل کرنے کے بعد تحریر فرماتے ہیں : ’’ہمارے شیخ نے ہمیں بتایا ہے کہ ’’اس ضعیف حدیث پر عمل جائز ہے جس کا ضعف شدید نہ ہو اور یہ حدیث اس معمول بہ اصل عام کے تحت ہو جس سے روکنے والی کوئی خاص دلیل نہ ہو اور اس حدیث پر عمل کرنے والا اس کے ثابت ہونے کا اعتقاد نہ رکھے۔‘‘ [1]
[1] ص ۱۵۴ ج ۲