کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 25
کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم
مصنف: ڈاکٹر سید سعید احسن عابدی
پبلیشر: مکتبہ الفرقان
ترجمہ:
باب پنجم:
حدیث واحد اور حدیث متواتر
میں نے کتابوں میں متداول تعبیر، خبر واحد اور خبر متواتر کے بجائے حدیث واحد اور حدیث متواتر کی تعبیر دو وجہوں سے اختیار کی ہے:
(۱) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول، فعل اور تقریر کا نام حدیث یا سنت ہی ہے۔ [1]
(۲) خبر حدیث کی صرف ایک صفت کو بیان کرتی ہے۔ یعنی اس کی روایت اور تبلیغ: یعنی یہ حدیث کے ہم معنی نہیں ہے ۔
اسی وجہ سے جمہور محدثین اور فقہاء رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول، فعل اور تقریر کے لیے حدیث یا سنت کی تعبیر ہی اختیار کرتے رہے ہیں اور یہ دونوں نام احادیث میں آئے بھی ہیں جیسا کہ مذکورہ بالا حوالوں سے معلوم ہوتا ہے۔
اللہ ورسول نے حدیث کے ماخذ شریعت ہونے کے اعتبار سے حدیث واحد اور حدیث متواتر میں کوئی تفریق نہیں کی ہے۔
دراصل حدیث کے ماخذ شریعت یا شرعی دلیل ہونے کے اعتبار سے قرآن وحدیث میں حدیث واحد اور حدیث متواتر کی اصطلاح استعمال ہی نہیں ہوئی ہے۔ ان میں تفریق تو دور کی بات ہے۔ یہ اپج تو معتزلہ کی ہے، پھر متکلمین نے یہی راگ الاپ کر اسے عقیدہ بنا دیا جس کو ان کے نقش قدم پر چلنے والے فقہاء اور ترقی پسند ادباء اور مصنّفین نے ایک مسلمہ قاعدہ قرار دے دیا۔ انکار حدیث کی تاریخ کے مطالعہ سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ حدیث واحد اور حدیث متواتر میں تفریق کو تمام احادیث کے انکار کے حربے کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔ سوائے چند ایسی حدیثوں کے جن سے بظاہر ان منکرین کے افکار کی تائید ہوتی ہے اور ان میں ایسی حدیثیں زیادہ ہیں جن کی نسبت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے۔
حدیث کی صحت جانچنے کا قرآنی قاعدہ:
﴿یٰٓاََیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِِنْ جَائَکُمْ فَاسِقٌ بِنَبَاٍِ فَتَبَیَّنُوْا اَنْ تُصِیبُوْا قَوْمًا بِجَہَالَۃٍ فَتُصْبِحُوْا عَلٰی مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِیْنَ﴾ (الحجرات: ۶)
’’اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لائے تو تحقیق کر لو، ایسا نہ ہو کہ تم نادانی
[1] صحیح مسلم، ۱، ۱۶۔۱۷، ترمذی: ۲۶۶۴۔ ابو داود: ۴۶۰۴۔ ابن ماجہ ۱۲۔مسند احمد ۱۷۳۲۶