کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 249
رہا ہے اور ہے اس لیے ان کی کتابوں میں قرآن و حدیث کی نصوص کی تاویلات بمعنی تحریفات کی بھر مار ہے۔ مذکورہ وضاحت کی روشنی میں فضائل اعمال کے باب میں ضعیف حدیث پر عمل کے خیال کے صوفیا کے حلقے میں رواج پانے کے سبب کو سمجھنا آسان ہو جاتا ہے۔ ضعیف حدیث پر عمل کے بارے میں ابن العربی کا نقطۂ نظر: ضعیف حدیث پر عمل کے مسئلہ میں جس عالم نے سب سے پہلے اپنی رائے کا برملا اعلان کیا ہے وہ مالکی مفسر اور فقیہ قاضی ابوبکر بن العربی متوفی ۵۴۲ھ ہیں انہوں نے ضعیف حدیث پر عمل کو علی الاطلاق ممنوع قرار دیا ہے اور اپنے شاگردوں کو ہدایات دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ وہ ایسی حدیث سے کوئی وابستگی نہ رکھیں جس کی سند ضعیف ہو۔‘‘[1]انہوں نے اپنی کتاب عارضۃ الاحوذی شرح الترمذی میں مشہور زاہد عالم حدیث ابو عبداللہ حارث بن اسد محاسبی بصری متوفی ۲۴۳ھ کی ضعیف احادیث سے استدلال پر سخت گرفت کی ہے۔[2] یہ ابوبکر بن العربی ملحد اور زندیق صوفی اور وحدۃ الوجود کے داعی محی الدین ابن عربی متوفی ۶۳۸ھ کے علاوہ ہیں ۔قاضی ابوبکر بن العربی کا قول ہے کہ: فضائل شارع سے حاصل کیے جاتے ہیں ۔ لہٰذا ضعیف احادیث کے ذریعہ ان کا اثبات نئی عبادت کی ایجاد اور ایسی شریعت سازی ہے جس کی اجازت اللہ تعالیٰ نے نہیں دی ہے۔ [3] نووی کا نقطۂ نظر: امام ابوزکریا محی الدین نووی متوفی ۶۷۶ھ نے قاضی ابن العربی کے بالکل برعکس ضعیف حدیث پر عمل کو پہلے تو جائز بتایا، پھر اس عمل کو مستحب قرار دے ڈالا، انہوں نے مقدمہ ابن صلاح کا اختصار کرتے ہوئے اس مسئلہ میں اپنی طرف سے ایسے اضافے کیے جو غیر مقبول ہیں ۔ حافظ ابن صلاح نے اپنے مقدمہ میں ضعیف حدیث پر عمل سے متعلق بعض محدثین کے اقوال بڑے تحفظات کے ساتھ نقل کیے تھے اور اس ارادے سے کہ ان کی یہ شاہکار کتاب رہتی دنیا تک اہل حدیث کے لیے ’’اصل ماخذ‘‘ بنی رہے، ضعیف حدیث کو معمول بہ بنانے کا سدباب کرنے کی غرض سے ایسی تعبیرات اختیار کرنے سے گریز کیا جو بعد میں ’’ایجاد بدعت‘‘ کا باعث بنیں یا ان کی آڑ میں کوئی مبتدع دین میں بدعت کو مقبول عام بنا سکے۔[4] لیکن نووی نے اس کو مقبول عام بنا دیا۔ اگرچہ انہوں نے اپنی بیشتر کتابوں میں ، مثلاً: ’’الاربعین‘‘اور ’’المجموع‘‘ میں اس کو جائز بتایا تھا، مگر ’’الاذکار‘‘ میں اس کو مستحب قرار دے ڈالا۔ امام نووی دین میں ’’بدعت‘‘ کے جس قدر خلاف تھے اس کو ہر خاص و عام جانتا ہے اور المجموع میں انہوں نے مبتدعین اور ان کی ایجاد کردہ بدعتوں کی جس طرح خبر لی ہے وہ قابل تعریف اور قابل ستائش ہے، لیکن علم حدیث میں اپنی
[1] فتح المغیث ص ۱۵۴ ج ۲، احکام القرآن ص ۵۸۰ ج ۲ [2] ص ۲۰۱-۲۰۲ ج ۵ [3] الفتح المبین ، ص ۳۶ [4] ص ۳…ص ۵۹ ج ۱… ص ۸