کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 248
طرق اور سندوں سے مروی ہونے کے نتیجے میں ’’حسن لغیرہ‘‘ نہیں ہو گی اور ضعیف کی ضعیف ہی رہے گی۔‘‘ [1]
اس مسئلہ کو واضح کرتے ہوئے علامہ احمد محمد شاکر تحریر فرماتے ہیں :
’’اگر حدیث اس وجہ سے ضعیف ہو کہ اس کا راوی فاسق ہے یا اس پر کذب بیانی کا الزام ہے تو اگر یہ حدیث اس طرح کے متعدد طرق سے مروی ہو پھر بھی اس کا یہ عیب باقی رہے گا، بلکہ کثرتِ طرق سے اس کا یہ ضعف بڑھ جائے گا، اس لیے کہ جن لوگوں پر جھوٹ بولنے کا الزام ہے یا جن کی عدالت داغ دار ہو ان کا کسی حدیث کی روایت میں منفرد ہونا ان کی حدیث کے اعتبار کو ختم کر دیتا ہے۔‘‘[2]
فضائل اعمال کے باب میں ضعیف حدیث پر عمل:
حسن حدیث کی دونوں قسموں ، حسن لذاتہ اور حسن لغیرہ کی بحث سے یہ بات واضح ہو گئی ہو گی کہ ائمہ حدیث کے یہاں ضعیف حدیث کی جو قسم درخور اعتنا سمجھی گئی ہے، وہ صرف وہ ہے جس کا راوی عدالت کی تو تمام صفات سے موصوف رہا ہو، البتہ اس کا حافظ یا تو صحیح حدیث کے راویوں کے حافظہ کے معیار کا نہ رہا ہو یا کچھ کمزور رہا ہو۔ اس کو بعد کے اہل حدیث علماء نے جن کے سرفہرست مستند اور متقدمین و متاخرین کے علوم کے جامع محدث حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ہیں ، ایسی ضعیف حدیث بتایا ہے ’’جس کا ضعف بہت شدید نہ ہو‘‘ اس ضعیف حدیث کے علاوہ ضعیف کی بقیہ دوسری قسمیں ، مثلاً: مرسل، موقوف، مقطوع، منقطع، معضل، مضطرب، معلل، شاذ، منکر اور مقلوب وغیرہ مردود ہیں جن کے سرفہرست موضوع ہے۔
مسلمانوں کے جس طبقہ میں فضائل اعمال کے باب میں ضعیف حدیث پر عمل کا موضوع سب سے پہلے زیر بحث آیا، اور پھر اس نے ایک قاعدہ کلیہ کی شکل اختیار کر لی وہ صوفیا کا طبقہ ہے۔ صوفیا کے بارے میں جس بات کو میں مسلسل دہراتا آ رہا ہوں اور جو ان کی کتابوں کے گہرے، سنجیدہ اور وسیع مطالعہ کا نتیجہ ہے، یہ ہے کہ اس طبقہ کے عقائد اور اعمال حق اور باطل اور اسلام اور غیر اسلام کا ملغوبا ہیں ، اگر صوفیامیں کچھ لوگ آپ کو سنت پر عمل پیرا ملیں تو یہ مت سمجھئے کہ ایسا وہ سنت کی محبت میں کر رہے ہیں ، بلکہ اس کا سبب یہ ہے کہ سنت کی جو باتیں ان کے من گھڑت اور خود ساختہ عقائد اور اعمال کے مطابق ہو گئی ہیں ان پر وہ سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور احترام میں عمل نہیں کر رہے، بلکہ اس وجہ سے عمل کر رہے ہیں کہ یہ ان کے مشائخ کا معمول بہ تھیں اس کو میں ایک مثال سے واضح کر دینا چاہتا ہوں :
منکرین حدیث، سنت اور حدیث کا مطالعہ اس میں عیوب اور نقائص تلاش کرنے کے لیے کرتے ہیں اور صوفیا قرآن اور حدیث دونوں کا مطالعہ اپنے باطل عقائد و نظریات اور اپنے مشائخ سے منقول اعمال، اوراد و اذکار اور ریاضتوں کے دلائل تلاش کرنے کے لیے، اس وجہ سے تصوف کی کتابیں اور ان کے مشائخ کے فضائل و مناقب کی تصنیفات جھوٹی روایتوں کا پلندا ہیں ، اور صوفیا کی اکثریت کا تعلق چونکہ اشعری اسکول کے متکلمین یا ماتریدی متکلمین سے
[1] ص ۳۱-۳۲
[2] الباعث الحثیث ص ۵۰۔