کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 247
مختلف فیہ، وہ سچے تو ہیں ، مگر حافظہ کے کمزور ہیں اس لیے ان کی حدیث ’’حسن لذاتہ‘‘ کے درجے پر نہیں پہنچتی۔ لیکن تتبع سے معلوم ہوا کہ یہ حدیث دوسری سندوں سے بھی مروی ہے۔ مثلاً امام ترمذی، امام ابن ماجہ اور امام ابن حبان نے اس حدیث کا مضمون ایک دوسری سند سے روایت کیا ہے جس میں موسیٰ بن ابراہیم بن کثیر نے یہ حدیث طلحہ بن خراش سے اور انہوں نے جابر بن عبداللہ سے۔ موسیٰ بن ابراہیم حافظہ کے تو کمزور تھے لیکن سچے تھے۔ اس طرح اس دوسری سند کی وجہ سے مثال میں پیش کردہ حدیث ’’حسن لغیرہ‘‘ کے درجہ پر پہنچ گئی۔ مگر اس کو یہ درجہ اس کی ذاتی قوت سے نہیں ملا، بلکہ دوسری حدیث سے ملا، اس لیے اس کو ’’حسن لذاتہ‘‘ کے بجائے ’’حسن لغیرہ‘‘ کہا جاتا ہے۔ [1] امام احمد اس حسن حدیث کو اس کی دونوں قسموں کے ساتھ قیاس اور رائے پر ترجیح دیتے تھے، کیونکہ اولاً تو اس کی، قیاس و رائے کے مقابلے میں ایک شرعی حیثیت تھی ثانیا قیاس و رائے کے بکثرت استعمال سے حدیث پر عمل کم ہوتا جا رہا تھا اور اس کا شرعی مقام دلوں اور نگاہوں میں گھٹتا جا رہا تھا، جبکہ یہ قرآن ہی کے مساوی شرعی ماخذ ہے اور اس کو اللہ تعالیٰ ہی نے رسول کی اطاعت اپنی اطاعت کی طرح فرض قرار دے کر یہ حیثیت دی ہے۔ تعدد طرق سے ہر ضعیف حدیث کا ضعف دور نہیں ہوتا: سطور بالا میں سندوں میں تعدد اور کثرت کے اثرات سے متعلق جو طویل بحث کی گئی ہے اس سے غلط نتیجہ نکالنے کا سدباب کرنے کے لیے اس اہم سوال کا جواب دے دینا بھی ضروری ہے کہ ’’کیا ہر ضعیف حدیث متعدد سندوں سے مروی ہونے کی وجہ سے ’’حسن لغیرہ‘‘ ہو جاتی ہے؟ حافظ ابن صلاح اس کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں : ’’ایسا نہیں ہے کہ حدیث میں موجود ہر ضعف اور کمزوری دوسرے طرق اور سندوں سے اس کے مروی ہونے سے دور ہو جاتی ہے، بلکہ اس ضعف کے درجات ہیں ، مثلاً: حدیث میں ایسا ضعف بھی ہوتا ہے جو راوی کے حافظ کی کمزوری کا نتیجہ ہوتا ہے، جبکہ اس کا شمار اہل صدق و امانت میں ہوتا ہو، تو ایسے راوی کی روایت کردہ حدیث کو جب ہم دیکھتے ہیں کہ وہ کسی دوسری سند سے بھی مروی ہے تو ہمیں پتا چل جاتا ہے کہ اس نے اپنی حدیث یاد رکھی تھی اور اس کے ضبط میں کوئی خلل واقع نہیں ہوا تھا۔ اسی طرح اگر حدیث ’’مرسل‘‘ ہونے کی وجہ سے ضعیف ہو اور ’’ارسال‘‘ کرنے والا کوئی امام اور حافظ ہو تو یہ بہت معمولی ضعف ہے جو اس کے دوسری سند یا سندوں سے مروی ہونے سے دور ہو جاتا ہے، لیکن حدیث میں ایسا ضعف بھی ہوتا ہے جو اتنا گہرا اور قوی ہوتا ہے کہ اس کی دوسری سند اس کو دور کرنے کی قدرت نہیں رکھتی، بطور مثال: اگر حدیث راوی کے جھوٹا ہونے اور شاذ ہونے کی وجہ سے ضعیف ہو تو ایسی حدیث متعدد
[1] تر مذی ۳۰۱۰، ابن ماجہ ۲۸۰۰، ابن حبان ۷۰۲۲