کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 246
ہیں ، اس لیے یہ حدیث صحیح کے درجے سے اتر کر حسن کے درجے پر ہو گئی۔ اسی وجہ سے امام ترمذی نے یہ حدیث روایت کرنے کے بعد لکھا ہے: ’’حدیث ہلب حدیث حسن‘‘ ہلب کی حدیث حسن ہے۔ حسن لغیرہ: ایسی ضعیف حدیث ہے جو ایک سے زیادہ سندوں سے مروی ہو، بشرطیکہ اس کا ضعف شدید نہ ہو، یعنی اس کا کوئی راوی کذب بیانی اور حدیث گھڑنے کا ملزم نہ ہو۔ کیونکہ ایسی حدیث کو موضوع یا متروک کہا جاتا ہے اور ایسی حدیث ناقابل قبول اور نا قابل استدلال ہے۔ سند کے بہت زیادہ کمزور اور ضعیف ہونے میں یہ بھی داخل ہے کہ اس میں متعدد عیوب -علل- ہوں ۔ لہٰذا اگر کسی حدیث کی سند متصل نہ ہو، اس کا راوی ضعیف بھی ہو، اور مجہول بھی تو اس میں تین عیوب -علتیں - جمع ہو گئے۔ لیکن اگر مذکورہ علتوں میں سے اس میں صرف کوئی ایک ہی علت ہو اور وہ ایک سے زیادہ سندوں سے مروی ہو تو دوسری سندوں سے مروی ہونے کی وجہ سے اس کا ضعف قدرے کم ہو جاتا ہے اور اس کو قوت حاصل ہو جاتی ہے۔ ایسی حدیث ’’حسن لغیرہ‘‘ ہے جس کا مطلب ہے کہ وہ اپنی ذاتی قوت سے حسن نہیں ہے، بلکہ اس کو حسن ہونے کی صفت دوسری سند، یا سندوں سے حاصل ہوئی ہے۔ حسن لغیرہ کی مثال: حسن لغیرہ کی مثال میں وہ حدیث پیش کی جا سکتی ہے جو امام احمد نے اپنی مسند میں ، امام بخاری کے شیخ حافظ ابوبکر عبداللہ بن زبیر حمیدی نے اپنی مسند میں اور حافظ سعید بن منصور نے اپنی سنن میں اپنے شیخ امام سفیان بن عیینہ کے واسطہ سے روایت کی ہے، فرماتے ہیں : مجھ سے محمد بن علی بن ربیعہ سلمی نے، عبداللہ بن محمد بن عقیل سے اور انہوں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایات کرتے ہوئے بیان کیا، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ((یا جابر! اعلمت ان اللّٰہ أحیا أباک، فقال لہ: تمن علی، فقال: أرد الی الدنیا فاقتل مرۃ اخری، فقال: انی قضیت الحکم انہم الیہا لا یرجعون)) ’’اے جابر! کیا تمہیں معلوم ہے کہ اللہ نے تمہارے باپ کو زندہ کر کے ان سے فرمایا مجھ سے اپنی خواہش بیان کرو، انہوں نے عرض کیا: دنیا میں لوٹایا جاؤں اور دوبارہ قتل کیا جاؤں ۔ اللہ نے فرمایا: میں نے یہ فیصلہ کر دیا ہے کہ وفات پا جانے والے اس کی طرف واپس نہیں کیے جائیں گے۔‘‘ [1] تو اس سند میں سفیان بن عیینہ ثقہ ہیں ، ان کے شیخ محمد بن علی سلمی ثقہ ہیں ، لیکن عبداللہ بن محمد بن عقیل کی ثقاہت
[1] مسند امام احمد: ۱۴۹۴۲