کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 245
ہے جن کا کلام ہم تک پہنچا ہے۔‘‘ [1] حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے شاگرد حافظ محمد بن عبدالرحمن سخاوی رحمہ اللہ نے حافظ عبدالرحیم بن حسین عراقی کی ’’الفیہ‘‘ کی شرح ’’فتح المغیث‘‘ کے نام سے چار جلدوں میں لکھی ہے جو بجا طور پر علوم الحدیث کی ’’جمہرہ‘‘ ہے اور الفیہ میں جس کے معنیٰ ہزار اشعار والی کے ہیں ، حافظ عراقی نے حافظ ابن صلاح کے مقدمہ کو نہایت مہارت اور خوبصورتی کے ساتھ ایک ہزار اشعار میں ڈھال دیا ہے۔ حافظ سخاوی نے فتح المغیث میں انہیں اشعار کی شرح کی ہے جو ایسی شرح ہے جو علوم الحدیث کے تمام گوشوں کو نہایت خوبصورتی، جامعیت اور حسن بیان کے ساتھ سمیٹے ہوئے ہے اس کتاب میں انہوں نے ایسے اضافے بھی کیے ہیں جو مقدمہ میں نہیں ہیں یا مجمل ہیں ۔ ائمہ حدیث کے اقوال نقل کر کے ان میں سے ہر ایک پر تبصرہ کیا ہے، ہر علم کی وضاحت کرتے ہوئے صحیح حدیثوں کی مثالیں دے کر ان کو قریب الفہم بھی بنایا ہے اور آسمان حدیث میں بکھرے ہوئے ستاروں کا تعارف بھی کرایا ہے۔ حافظ سخاوی نے حافظ ابن صلاح کی مذکورہ بالا عبارت میں حسن حدیث کی پہلی قسم کو ’’حسن لغیرہ‘‘ اور دوسری قسم کو ’’حسن لذاتہ‘‘ بتایا ہے۔ موضوع کی نزاکت کے پیش نظر ذیل میں دونوں قسموں کی آسان اور جامع تعریف کر دینا چاہتا ہوں ۔ حسن لذاتہ: وہ حدیث ہے جس کی سند متصل ہو، اس کے تمام راوی عدالت سے موصوف ہوں ، اور وہ علت اور شذوذ سے بھی پاک ہو، مگر اس کے راویوں یا کسی ایک راوی کا حافظہ اور ضبط صحیح حدیث کے راویوں کے حافظہ اور ضبط سے کم تر ہو۔ مثال: ((حدثنا قتیبۃ: حدثنا ابو الاحوص، عن سماک بن حرب، عن قبیصۃ بن ہلب، عن ابیہ، قال: کان رسول اللہ صلي اللّٰه عليه وسلم یومنا، فینصرف علی جانبیہ جمیعا: علی یمینہ و علی شمالہ)) ’’ہم سے قتیبہ نے بیان کیا، کہا: ہم سے ابو الاحوص نے سماک بن حرب سے، انہوں نے قبیصہ بن ہلب سے اور انہوں نے اپنے باپ سے، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری امامت فرماتے تھے اور اپنی دونوں جانب: دائیں اور بائیں گھوم جاتے تھے۔‘‘ [2] یہ حدیث حسن لذاتہ ہے، اس لیے کہ: قتیبہ ثقہ ہیں ، ابو الاحوص ثقہ ہیں ، سماک بن حرب سچے ہیں ، قبیصہ مقبول ہیں اور ہلب صحابی ہیں ۔ اس طرح اس حدیث کے دو راوی: سماک بن حرب اور قبیصہ بن ہلب صحیح حدیث کے راویوں سے کمتر درجے کے
[1] ص ۳۰-۳۱ [2] ابو داود: ۱۰۴۱، ترمذی: ۳۰۱، ابن ماجہ: ۹۲۹