کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 244
مع ذلک قد عرف بأن روی مثلہ او نحوہ من وجہ آخر او اکثر حتی اعتضد بمتابعۃ من تابع راویہ علی مثلہ او بما لہ من شاہد، و ہو ورود حدیث آخر بنحوہ، فیخرج بذلک عن ان یکون شاذا و منکرا و کلام الترمذی علی ہذا القسم یتنزل۔ القسم الثانی: ان یکون راویہ من المشہورین بالصدق والامانۃ، غیر انہ لم یبلغ درجۃ رجال الصحیح لکونہ یقصر عنہم فی الحفظ و الاتقان، و ہو مع ذلک یرتفع عن حال من یعد ما ینفرد بہ من حدیثہ منکرا و یعتبر فی کل ہذا مع سلامۃ الحدیث من ان یکون شاذا و منکرا سلامتہ من ان یکون معللا و علی ہذا القسم یتنزل کلام الخطابی، فہذا الذی ذکرناہ جامع لما تفرق فی کلام من بلغنا کلامہ فی ذلک۔)) ’’میں کہتا ہوں : یہ سب مغلق اور غیر تشفی بخش ہے، اس سے پیاس نہیں بجھتی؛ ترمذی اور خطابی کی تعریفوں سے حسن حدیث صحیح حدیث سے جدا نہیں ہوتی اور جب میں نے اس مسئلہ کی گہرائی میں نظر ڈال کر اس کی تحقیق کی، علمائے حدیث کے کلام کے گوشوں کو ایک ساتھ جمع کر کے دیکھا اور ان کے استعمالات کا جائزہ لیا تو یہ مسئلہ میرے لیے منقح ہو گیا اور یہ بات واضح ہو گئی کہ حسن حدیث دو قسموں سے عبارت ہے: ۱۔ پہلی قسم وہ حدیث ہے جس کی سند کے راویوں میں سے کوئی ایسا ’’پاک دامن‘‘ ہونے سے کم نہ ہو جس کی صلاحیت تو ثابت نہ ہو، لیکن اپنی مرویات میں بے خبر اور بے تحاشا غلطیوں کا مرتکب بھی نہ ہو، اور نہ اس پر حدیث کی روایت میں کذب بیانی کا الزام ہو یعنی اس سے روایت حدیث میں دروغ گوئی کے ارادے کا اظہار نہ ہوا ہو اور نہ موجب فسق کسی اور سبب کا ان تمام باتوں کے ساتھ حدیث کا متن ایسا ہو جو اس اعتبار سے معروف ہو کہ اس کے مانند یا اس سے متقارب متن کسی دوسری ایک سند یا متعدد سندوں سے مروی ہو، تاکہ اس طرح کے راوی کی موافقت، یا اس کے شاہد ہونے سے اس کو تقویت حاصل ہو، یعنی اس طرح کی کوئی اور حدیث اس کی مانند سند سے بھی مروی ہو اور وہ شاذ اور منکر کے دائرے سے نکل جائے۔ ترمذی کی تعریف حسن حدیث کی اسی قسم پر منطبق ہوتی ہے۔ حسن حدیث کی دوسری قسم وہ ہے جس کا راوی سچائی اور امانت داری کی شہرت رکھنے والوں میں سے ہو، البتہ حفظ اور مہارت میں کمی کے باعث صحیح حدیث کے راویوں کے درجے پر نہ پہنچا ہو، اس کے باوجود وہ اس راوی کے مقام سے بلند ہو جس کی منفرد روایت منکر حدیث شمار ہوتی ہے اور ان تمام امور میں قابل اعتبار بات یہ ہے کہ یہ حدیث شاذ اور منکر نہ ہونے کے ساتھ کسی علت کی حامل بھی نہ ہو، اس قسم پر خطابی کی تعریف صادق آتی ہے۔ ہم نے یہ جو بیان کیا ہے وہ ان علمائے حدیث کے کلام کے متفرق گوشوں کا جامع