کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 243
ہے وہی حق ہے۔ اب جبکہ یہ بات واضح ہو گئی کہ ضعیف حدیث وہی ہے جس کو متاخرین کی کتابوں میں ’’حسن‘‘ کہا جاتا ہے، اور اس میں کوئی باطل، منکر اور کذب بیانی اور وضع کے ملزم راوی کی روایت کردہ حدیث داخل نہیں ہے، تو اس سے یہ بات بھی معلوم ہو گئی کہ اصلاحی اور برنی نے سند میں چوتھا ’’خلا‘‘ دکھاتے ہوئے محدثین پر ترغیب و ترہیب اور فضائل اعمال کے باب میں کمزور روایات پر عمل کرنے کا جو الزام لگایا ہے وہ ان کی بیمار ذہنیت کی پیداوار ہے امام احمد یا اور کوئی محدث نہ معروف اور متداول معنی میں ضعیف روایت کے پھیلانے اور قبول عام بنانے کا مرتکب ہوا ہے اور نہ ترغیب و ترہیب کے باب میں احادیث کی سند میں تساہل برتنے کے قول ہی کی نسبت امام احمد اور اکابر محدثین کی طرف صحیح ہے۔ میں نے الکفایہ میں منقول امام احمد سے منسوب اقوال کی حقیقت بھی بیان کر دی ہے اور اس مسئلہ سے متعلق خود بغدادی کے نقطۂ نظر کو بھی انہی کے الفاظ میں بیان کر دیا ہے اس طرح ان دونوں ، اصلاحی اور برنی کے غبارے سے ہوا نکل چکی ہے، لیکن اُردو قارئین کے اطمینان قلب اور ایضاح مزید کے طور پر پہلے ’’حسن‘‘ حدیث کی تعریف اور ارباب تصوف کے حلقوں میں فضائل اعمال میں ضعیف حدیثوں پر عمل کے رواج پانے کے اسباب کو بیان کر دینا مناسب خیال کرتا ہوں ، تاکہ اکابر محدثین کے دامن کو اس الزام سے پاک کر سکوں ۔ حسن حدیث کی تعریف: حافظ ابن صلاح رحمہ اللہ نے اپنے مقدمہ میں امام ابو عیسیٰ ترمذی صاحب الجامع، اور مشہور عالم حدیث، امام حاکم کے شیخ اور اعلام الجامع الصحیح للبخاری اور معالم السنن لابی داؤد کے مصنف حمد بن محمد بن ابراہیم ابو سلیمان خطابی متوفی ۳۸۸ھ کی تعریفاتِ ’’حسن‘‘ کا ذکر کرنے کے بعد پہلے ان کی تعریفوں کے بارے اپنی رائے کا اظہار کیا ہے، پھر حسن اور اس کی قسموں کی خود تعریف کی ہے، چونکہ حافظ ابن صلاح نہایت قانونی زبان لکھتے تھے اور قانون کی زبان جامع ہونے کے ساتھ مختصر ہوتی ہے اور حشو و زوائد سے خالی ہوتی ہے۔ اس لیے اس مسئلہ کی اہمیت اور محدثین پر ضعیف حدیثوں کی ترویج کے الزام کا پردہ چاک کرنے کے لیے میں پہلے ابن صلاح کی عربی عبارت نقل کروں گا، پھر اس کا ترجمہ، پھر اس کے مندرجات کی ضروری وضاحت، فرماتے ہیں : ((قلت: کل ہذا مستبہم لا یشفی الغلیل، و لیس فیما ذکرہ الترمذی و الخطابی ما یفصل الحسن من الصحیح، و قد امعنت النظر فی ذلک و البحث جامعا بین اطراف کلامہم، ملاحظا مواقع استعمالہم فتنقح لی و اتضح ان الحدیث الحسن قسمان: احدہما: الحدیث الذی لا یخلو رجال اسنادہ من مستور لم تتحقق اہلیتہ غیر انہ لیس مغفلا کثیر الخطأ فیما یرویہ، و لا ہو متہم بالکذب فی الحدیث، ای لم یظہر منہ تعمد الکذب فی الحدیث و لا سبب اخر مفسق، و یکون متن الحدیث