کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 242
((الاصل الرابع: الاخذ بالمرسل و الحدیث الضعیف اذا لم یکن فی الباب شیء و ہو الذی رجحہ علی القیاس، و لیس المراد بالضعیف عندہ الباطل و لا المنکر، و لامافی رواتہ متہم؛ بحیث لا یسوغ الذہاب الیہ و العمل بہ، بل الحدیث الضعیف عندہ قسیم الصحیح، و قسم من اقسام الحسن، و لم یکن یقسم الحدیث الی: صحیح و حسن و ضعیف، بل الی صحیح و ضعیف، و الضعیف عندہ مراتب، فاذا لم یجد فی الباب اثرا یدفعہ، و لا قول صاحب و لا اجماع علی خلافہ: کان العمل بہ عندہ اولی من القیاس۔ و لیس احد من الائمۃ الاربعۃ الا و ہو موافقہ علی ہذا الاصل من حیث الجملۃ، فانہ ما منہم احد الا و قد قدم الضعیف علی القیاس)) ’’شرعی مسائل کے بیان کے باب میں ان کے معمول بہ اصولوں میں سے چوتھا اصول یہ تھا کہ وہ مرسل حدیث اور ضعیف حدیث کو لے لیتے تھے، بشرطیکہ اس سے متعارض کوئی دلیل نہ ہو۔ یہی وہ ضعیف حدیث ہے جس کو وہ قیاس پر ترجیح دیتے تھے، اور ان کے یہاں ضعیف سے مراد باطل اور منکر روایت نہیں تھی، اور نہ وہ روایت تھی جس کے راویوں میں کوئی کذب بیانی اور حدیث گھڑنے کا ملزم ہو کہ اس کی طرف رخ کرنا اور اس پر عمل کرنا روا نہیں ہے، بلکہ ان کے نزدیک ضعیف حدیث صحیح حدیث ہی کی ایک قسم اور حسن حدیث کی قسموں میں سے ایک قسم تھی، ان کے یہاں حدیث: صحیح، حسن اور ضعیف میں تقسیم نہیں کی جاتی تھی، بلکہ صرف صحیح اور ضعیف میں تقسیم کی جاتی تھی اور ان کے یہاں ضعیف کے درجات تھے۔ لہٰذا جب وہ پیش آمدہ مسئلہ میں ایسا کوئی صحیح اثر نہیں پاتے جو اس ضعیف حدیث سے مزاحم ہو۔ یا کسی صحابی کا قول، یا اجماع اس کے خلاف ہو تو اس پر عمل کرنا ان کے نزدیک اولی تھا۔ اور ائمہ اربعہ میں کوئی بھی ایسا نہیں ہے جو اس اصول میں اجمالی طور پر ان سے متفق نہ رہا ہو؛ ان میں سے ہر ایک نے ضعیف حدیث کو قیاس پر ترجیح دیا ہے۔‘‘ [1] اس کے بعد حافظ ابن القیم نے امام ابو حنیفہ، امام شافعی اور امام مالک کا طرز عمل بیان کیا ہے۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا ضعیف حدیث سے متعلق جو طرز عمل تھا اس کا ذکر ’’حدیث واحد سے قرآن پر اضافہ‘‘ کے عنوان کے تحت ان شاء اللہ تفصیل سے کروں گا۔ حافظ ابن القیم نے امام احمد کے زمانے میں حدیث کی جن دو قسموں ، صحیح و ضعیف کے متعارف ہونے کی بات لکھی
[1] ص ۵۵-۵۶ ج ۲