کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 241
اصلاحی صاحب کے پاس الکفایہ کا جو نسخہ رہا ہو گا اس میں بھی ائمہ حدیث کے اقوال بذریعہ سند ہی بیان کیے گئے ہوں گے، مگر وہ چونکہ علم الاسناد سے تہی دامن تھے اس لیے اپنے مطلب کی ہر رطب و یابس چیز نقل کر دیتے تھے، رہے ان کے پیر وکار تو وہ طوطے کی طرح ان کی ہر بات نقل کر دینے ہی کو ’’علم‘‘ سمجھتے ہیں اور اس کے سہارے بڑے بڑے دعوے کرتے ہیں ۔
حافظ بغدادی نے اس زیر بحث باب کے نیچے محدثین کے حوالہ سے جو مسلک بیان کیا ہے وہ ان کے الفاظ میں یہ ہے:
((قد ورد عن غیر واحد من السلف انہ لا یجوز حمل الاحادیث المتعلقۃ بالتحلیل و التحریم الا عمن کان برئیا من التہمۃ، بعید من المظنۃ و اما احادیث الترغیب و المواعظ و نحو ذلک، فانہ یجوز کتبہا عن سائر المشائخ))
’’اسلاف میں سے ایک سے زیادہ سے یہ بات منقول ہے کہ تحلیل و تحریم سے متعلق احادیث کی نقل و روایت صرف ایسے راوی سے جائز ہے جو کذب بیانی کے الزام سے پاک ہو اور بدگمانی سے دور ہو، رہیں ترغیب و نصائح اور اس قبیل کی احادیث تو تمام شیوخ کے حوالہ سے ان کا لکھنا جائز ہے۔‘‘ [1]
مشائخ: مشیخہ کی جمع ہے اور مشیخہ شیخ کا ہم معنیٰ اور مترادف ہے، اور شیخ تعدیل راوی کا تیسرا درجہ ہے حافظ ابن صلاح جرح و تعدیل کے مسلم اور مستند امام ابن ابی حاتم کے حوالہ سے تحریر فرماتے ہیں :
((الثالثۃ: قال ابن ابی حاتم اذا قیل: ’’شیخ‘‘ فہو بالمنزلۃ الثالثۃ، یکتب حدیثہ و ینظر فیہ، الا انہ دون الثانیۃ))
’’تعدیل کا تیسرا درجہ: اگر راوی کا ذکر ’’شیخ‘‘ کہہ کر کیا جائے تو وہ تیسرے درجے پر ہے اس کی روایت کردہ حدیث غور و فکر کی غرض سے لکھی جائے گی، مگر وہ دوسرے درجے سے کمتر ہے۔‘‘ [2]
یاد رہے کہ دوسرے درجہ کا ’’عدل راوی‘‘ وہ ہے جس کا ذکر ائمہ نقد رجال ان الفاظ سے کرتے ہیں : انہ صدوق وہ بہت سچا ہے۔ او محلہ الصدق یا اس کا مقام صدق گوئی ہے او لا باس بہ یا اس میں کوئی مضائقہ نہیں ۔
امام احمد کا مسلک:
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ اور ان کے شاگرد رشید امام ابن القیم امام احمد کے اقوال، اور مسلک کو معلوم کرنے کا سب سے زیادہ قابل اعتماد ماخذ کا درجہ رکھتے ہیں اور ان دونوں کی حق گوئی اور صدق بیانی مجھ جیسے کم علم کے ’’تزکیہ‘‘ کی محتاج نہیں ہے، ابن القیم اپنی معرکۃ الآرا کتاب: اعلام الموقعین میں مرسل اور ضعیف حدیث کو دلیل بنانے سے متعلق امام احمد کے مسلک کو بیان کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں :
[1] ص ۳۹۸ ج ۱
[2] ص ۸۲