کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 240
سند کے مذکورہ فرضی اور من گھڑت خلا پر تنقید کی ہے اور اپنے امام کی ہمنوائی کرتے ہوئے امت میں شرک و بدعت اور صوفیانہ افکار کے رواج پانے کے پیچھے سند کی اس کمزوری -خلا- کو کار فرما بتایا ہے۔ اس مسئلہ میں ان دونوں بزرگوں کا تعاقب کرنے اور صورت واقعہ بیان کرنے سے پہلے اپنے قارئین کے علم میں ایک بار پھر یہ بات لانا چاہتا ہوں کہ یہ دونوں بزرگ اور اصلاحی مکتبۂ فکر سے وابستہ دوسرے اہل قلم، الامن رحم ربی، حدیث اور علوم الحدیث کی کتابوں کا مطالعہ کرتے ہی اس لیے ہیں کہ ان میں ان کو عیوب و نقائص ملیں اور محدثین کے اعمال میں ان کو کمزوریاں نظر آئیں ۔ امام احمد کے قول کی استنادی حیثیت: خطیب بغدادی نے اس مسئلہ سے متعلق جو باب باندھا ہے وہ بڑا مختصر اور صرف دو صفحوں پر مشتمل ہے اور ۴ ائمہ حدیث کے اقوال نقل کیے ہیں ؛ ایک قول سفیان ثوری کا ہے، دوسرا سفیان بن عیینہ کا۔ دو اقوال امام احمد کی نسبت سے نقل کیے ہیں اور پانچواں قول ابو زکریا عنبری کی طرف منسوب کیا ہے۔ ان پانچوں اقوال میں سے ۴ کی نسبت ان کے قائلین سے صحیح نہیں ہے۔ صرف ابن عیینہ کا قول ان کی نسبت سے صحیح ہے۔ اس تفصیل سے یہ معلوم ہوا کہ امت کے یہ مجددین اور بہی خواہ اپنے باطل اور گمراہ کن افکار و نظریات کا قصر جن بنیادوں پر تعمیر کرتے ہیں وہ ریت سے عبارت ہوتی ہیں ، اس کے باوجود ان کو اپنے علم و مطالعہ پر اس قدر ناز ہے کہ اپنے حق میں یہ اور اس طرح کی تعبیریں اختیار کرتے ہیں : ہمارے نزدیک، ہمارے اصولوں کے مطابق، ہماری معلومات کی رو سے، وغیرہ فاعتبروا یا أولی الأبصار امام احمد کی طرف منسوب جو قول اوپر نقل کیا گیا ہے اس کے بارے میں اس سے قبل عرض کر چکا ہوں کہ یہ امام احمد پر جھوٹ ہے، کیونکہ اس کا راوی ابو عبداللہ نوفل کذاب تھا۔ بغدادی نے امام احمد کی نسبت سے جو دوسرا قول نقل کیا ہے، اس کے الفاظ ہیں : ((الأحادیث الرقاق یحتمل ان نتساہل فیہا، حتی یجیٔ شیٔ فیہ حکم)) ’’رقت پیدا کرنے والی حدیثوں کے بارے میں ہمارے نرمی کرنے کا امکان ہے یہاں تک کہ زیر بحث مسئلہ میں کوئی ایسی حدیث آ جائے جس میں حکم بیان کیا گیا ہو۔‘‘ [1] اس قول کی روایت بغدادی نے ’’حُدثت عن عبدالعزیز بن جعفر‘‘ کہہ کر کی ہے جس کا ترجمہ ہے: عبدالعزیز بن جعفر کے واسطہ سے مجھ سے بیان کیا گیا، یعنی اس شخص کی تصریح نہیں کی ہے جس نے ان سے یہ قول ’’عبدالعزیز‘‘ کے حوالہ سے بیان کیا ہے اس طرح یہ قول ساقط الاعتبار ہو گیا۔
[1] الکفایہ: ص ۳۹۸ ج ۱