کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 239
ثقاہت و عدم ثقاہت کی بحث و تحقیق، حدیث کا تعلم و تعلیم اور مدارسہ تھا۔ مسلمانوں میں متعدد فرقے پیدا ہو چکے تھے، زمانے کی عام رو سے متاثر ہو کر اور اپنے مذہبی مقاصد کے لیے بھی سبھی حدیث کے تعلم و تعلیم اور تحصیل و روایت میں مصروف ہو چکے تھے، ان میں روایت حدیث میں صدق گوئی اور امانتداری سے موصوف لوگ بھی تھے اور جھوٹے بھی۔ ایسی صورت میں محدثین انہی لوگوں سے حدیثیں روایت کرتے تھے جو لوگ ان کے تجربات اور دوسرے اہل علم و فضل کے تجربات کی روشنی میں صادق و امین تھے۔ امام مسلم نے اپنی صحیح کے مقدمہ میں ایسے متعدد لوگوں کی فہرست دی ہے جن کے ظاہری تقویٰ و صلاح، زہد و توکل اور دین داری کے باوجود ان سے حدیثیں روایت نہیں کی جاتی تھیں ۔ اس لیے کہ وہ روایت حدیث میں صادق و امین نہیں تھے۔ لیکن انہیں میں ایسے بھی تھے جو اگرچہ اقلیت میں تھے، مگر روایت حدیث میں صدق گوئی اور امانت سے موصوف تھے۔ ان سب کے کوائف’’رجال‘‘ کی کتابوں میں مدون ہیں ۔ حدیث کا مجموعی مزاج: امین اصلاحی صاحب کی تحریروں میں دین کے مجموعی مزاج اور حدیث کے مجموعی مزاج کی تعبیر اکثر و بیشتر استعمال ہوئی ہے اس سے ان کی کیا مراد ہے یہ وہ جانیں ، روایت حدیث کا مزاج یہ ہے کہ راوی عدالت سے موصوف ہو جس کا بنیادی عنصر ’’صدق‘‘ ہے اور محدثین نے اس کی پوری پوری رعایت کی ہے۔ سند کا چوتھا خلا: اصلاحی صاحب تحریر فرماتے ہیں : سند کی تحقیق میں چوتھا خلا یہ ہے کہ ہمارے اکابر حدیث نے حلال و حرام کے متعلق حدیثیں قبول کرنے میں فی الجملہ احتیاط برتی ہے، لیکن ترغیب و ترہیب اور فضائل وغیرہ کی روایات میں انہوں نے عمداً تساہل برتا ہے، الکفایہ فی علم الروایہ میں امام احمد بن حنبل کا قول نقل ہوا ہے وہ فرماتے ہیں : ’’إذا روینا عن رسول اللہ صلي اللّٰه عليه وسلم فی الحلال و الحرام و السنن و الأحکام تشددنا فی الأسانید و إذا روینا عن النبی صلي اللّٰه عليه وسلم فی فضائل الأعمال و ما لا یضع حکما و لا یرفعہ تساہلنا فی الأسانید)) ’’جب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالہ سے حلال و حرام اور سنن و احکام کے متعلق حدیث روایت کرتے ہیں تو سند کے بیان میں شدت پسندی سے کام لیتے ہیں اور جب فضائل اعمال کی حدیث اور ایسی حدیث روایت کرتے ہیں جو نہ تو کوئی حکم بیان کرتی ہے اور نہ کسی حکم کو کالعدم کرتی ہے تو سند کے بیان میں نرمی سے کام لیتے ہیں ۔‘‘ ڈاکٹر برنی صاحب نے بھی امام احمد سے منسوب اس قول کا ذکر فرمایا ہے اور اپنے امام سے زیادہ سخت الفاظ میں