کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 238
۱۔ عام دروغ گو کی روایت اگر وہ اس مذموم صفت سے موصوف رہے، ناقابل قبول ہے، لیکن اگر وہ اس سے صدق دل سے تائب ہو جائے تو اس کی عدالت بحال ہو جائے گی اور اس سے اس کی مرویات سنی اور قبول کی جائیں گی۔ ۲۔ حدیث رسول میں کذب بیانی کے مرتکب کی روایت کسی بھی حال میں قبول نہیں کی جائے گی؛ نہ قبل از توبہ اور نہ بعد از توبہ۔ ۳۔ جن مبتدعین سے بعض ائمہ حدیث نے جو ایک دو حدیثیں روایت کی ہیں وہ ایسے بدعتی تھے جو کذب بیانی کی مذموم صفت سے پاک تھے۔ ۴۔ انسان کی صدق گوئی اور کذب بیانی ایسی صفتیں ہیں جن کو بڑی آسانی سے معلوم کیا جا سکتا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صادق و کاذب کی پہچان کا ایک قاعدہ بھی بیان کر دیا ہے۔ ارشاد نبوی ہے: ((ان الصدق یہدی إلی البر و ان البر یہدی إلی الجنۃ و إن الرجل لیصدق حتی یکتب عند اللہ صدیقا و إن الکذب یہدی إلی الفجور و إن الفجور یہدی إلی النار و إن الرجل لیکذب حتی یکتب عند اللہ کذابا)) ’’درحقیقت صدق گوئی نیکی کی راہ دکھاتی ہے، اور نیکی جنت کی طرف لے جاتی ہے اور ایک آدمی صدق بیانی کو معمول بنا لیتا ہے یہاں تک کہ وہ اللہ کے نزدیک راست رو اور صدق گو لکھ لیا جاتا ہے اور جھوٹ برائی کی طرف لے جاتا ہے اور برائی جہنم کی طرف لے جاتی ہے اور ایک آدمی جھوٹ کا عادی ہو جاتا ہے، یہاں تک کہ وہ اللہ کے نزدیک بہت بڑا جھوٹا لکھ لیا جاتا ہے۔ ‘‘[1] اللہ تعالیٰ کے نزدیک جو لوگ سچے یا جھوٹے ہوتے ہیں اس دنیا میں بھی اپنی ان دونوں صفتوں میں معروف ہو جاتے ہیں ۔ کفار مکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے شدید مخالف تھے اور ہمیشہ آپ کے درپۂ آزار رہتے تھے اور آپ کو صادق و امین بھی مانتے تھے۔ قرآن پاک کے مطابق قید میں یوسف علیہ السلام کے ساتھی آپ کی صداقت اور نیکو کاری کے معترف اور مداح تھے اور ان قیدی ساتھیوں میں سے رہائی پانے والے ایک قیدی نے جب بادشاہ کے خواب کا واقعہ سنا تو بادشاہ سے یہ درخواست کی کہ وہ اس کو یوسف علیہ السلام سے اس خواب کی تعبیر معلوم کرنے کی اجازت دے اس کو یوسف علیہ السلام کے بارے میں تو کچھ نہیں معلوم تھا، البتہ وہ اپنے اس خواب سے پریشان تھا اور درباری علماء اس کی تعبیر سے اپنی عاجزی کا اظہار اس کو ’’خواب پریشاں ‘‘ کہہ کر کرچکے تھے۔ اس لیے اس نے اس شخص کو اجازت دے دی، اس نے یوسف علیہ السلام کو دیکھتے ہی آپ کو حدیث میں مذکور اس لقب ’’صدیق‘‘ سے مخاطب کیا اور کہا: یوسف أیہا الصدیق! یوسف اے نہایت سچے! تابعین، تبع تابعین اور تبع تبع تابعین کے دور میں محدثین کا سب سے بڑا مشغلہ اس حدیث اور اس کے راویوں کی
[1] بخاری: ۶۰۹۴، مسلم: ۲۶۰۷