کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 237
بخاری کے استاد ابوبکر حمیدی بھی شامل ہیں ، یہی مسلک ہے۔‘‘[1]
حافظ خطیب بغدادی نے، جو اصلاحی اور برنی کے محبوب مصنف ہیں ان السفہ یسقط العدالۃ و یوجب رد الروایۃ ’’حق ناشناسی عدالت کو ساقط کر دیتی ہے اور روایت مسترد کر دینے کی موجب ہے‘‘ کے باب کے آخر میں امام مالک کا وہ قول صحیح سند کے ساتھ نقل کیا ہے جس میں انہوں نے چار صفات کے حامل راویوں سے روایت قبول نہ کرنے کی تلقین کی ہے۔
۱۔ ایسا حق ناشناس اور بے دین جو اپنی بے دینی کا اعلان کرتا پھرے، اگرچہ وہ حدیثوں کا بہت بڑا راوی ہو۔
۲۔ لوگوں سے بات چیت میں دروغ گوئی کرنے والا جس کی دروغ گوئی کا تجربہ ہو، اگرچہ اس پر یہ الزام نہ ہو کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ گھڑتا ہے۔
۳۔ ایسا شیخ جو صاحب فضل اور عبادت گزار ہو، لیکن وہ علم کے بغیر روایت کرتا ہو، یا اس کو یہ نہ معلوم ہو کہ وہ کیا چیز روایت کرتا ہے۔[2]
امام مالک کا یہ قول نقل کرنے کے بعد بغدادی نے مقابل کے صفحہ پر جو باب قائم کیا ہے اس کا عنوان ہے:
’’ان الکذاب فی غیر حدیث رسول اللہ صلي اللّٰه عليه وسلم ترد روایتہ‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے علاوہ دوسری چیزوں میں دروغ گو کی رویات مسترد کرنے کے قابل ہے۔
پھر نیچے امام مالک کے مذکورہ بالا قول کا حوالہ دینے کے بعد لکھا ہے:
((وَ یَجِبُ اَن یَقْبل حدیثہ اذا ثبتت توبتہ))
’’اور اگر اس کی توبہ ثابت ہو جائے تو اس کی روایت کردہ حدیث کو قبول کرنا فرض ہے۔‘‘
پھر وہ تحریر فرماتے ہیں :
’’رہا حدیث گھڑ کر اور سماع کا دعویٰ کر کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ بولنا تو ایک سے زیادہ اہل علم کا قول ہے کہ ایسا کرنے والے کے تائب ہو جانے کے باوجود اس کی روایت کردہ حدیث کو ہمیشہ کے لیے مسترد کرنا فرض ہے۔‘‘[3]
حاصل کلام:
حافظ ابن صلاح اور حافظ خطیب بغدادی کا جو مسلک ان کی کتابوں میں بیان کیا گیا ہے۔ وہی مسلک، حافظ ابن عبدالبر، حافظ محمد بن عبدالرحمن سخاوی اور علوم الحدیث کے دوسرے تمام مصنفین نے ائمہ حدیث کی طرف منسوب کیا ہے، جس کا حاصل ہے:
[1] مقدمہ، ص ۲۲
[2] ص ۳۵۶ ج ۱
[3] ص ۳۵۲ ج ۱