کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 236
راویوں سے صرف ایک دو حدیثیں روایت کی ہیں اور وہ بھی ایسی جو ان کے عقیدے، بلکہ اسلامی عقائد سے متعلق نہیں تھیں اور بدعتی راوی صرف وہی حدیثیں روایت بھی نہیں کرتے تھے، جن کا تعلق عقائد سے ہو، بلکہ وہ دین کے دوسرے امور سے متعلق بھی ہوتی تھیں ، اگر ہم برنی کا یہ دعویٰ مان بھی لیں کہ ’’اس کی روایتوں سے لازماً اس کے عقیدے کا انعکاس ہو گا اور عقیدہ بھی وہ جس کے تحفظ کے لیے کسی نہ کسی درجے میں دروغ گوئی کو روا رکھا گیا ہو، تو کیا امام ابو حنیفہ، امام مالک، امام شافعی اور امام احمد رحہم اللہ جیسے اساطین علم اسلامی عقائد سے اس قدر ناواقف تھے کہ اسلامی عقائد اور غیر اسلامی عقائد میں تمیز نہیں کر سکتے تھے۔ میرے خیال میں ایسا دعویٰ صرف غیر مسلم مستشرق ہی کر سکتا ہے کہ ائمہ اسلام اور اکابر محدثین بھی صحیح اسلامی عقائد نہیں جانتے تھے اور بدعتی راویوں سے ایسی حدیثیں بھی روایت کرتے تھے جن میں غیر اسلامی یا من گھڑت عقائد منعکس ہوتے تھے یا ایسا دعویٰ ’’جماعت المسلمین‘‘ کا کوئی فرد کر سکتا ہے جو اپنے عقیدے کے سوا تمام دوسرے عقائد کو باطل سمجھتا ہے اور ان کو ماننے والوں کے پیچھے نماز پڑھنے کو جائز نہیں مانتا، جو اسلام کا پہلا عملی رکن ہے۔ رہی بات دروغ گوئی کی تو اس امر پر محدثین کا اتفاق ہے کہ دروغ گو اور جھوٹا راوی ’’ساقط الاعتبار‘‘ ہے۔ البتہ اس امر میں اختلاف ہے کہ کیا عام دنیوی معاملات میں کذب بیانی اور روایتِ حدیث میں کذب بیانی دونوں یکساں درجے میں ہیں ، یا ان میں فرق ہے؟ تو اگرچہ کذب بیانی کی ان دونوں قسموں میں انجام کے اعتبار سے فرق ہے، معاملات دنیوی میں لوگوں سے جھوٹ بولنے والا ’’فاسق‘‘ ہے، خارج از ملت نہیں ہے اور فسق ’’ثقہ راوی‘‘ کی صفتِ عدالت کے منافی تو ہے، لیکن اگر وہ اس بری صفت سے تائب ہو جائے تو اس کی روایت قابل قبول ہے۔ لیکن حدیث رسول کی روایت میں کذب بیانی ایسا جرم ہے جس کی سزا جہنم ہے۔ ایسا شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ایسی بات منسوب کر کے جو آپ نے نہیں فرمائی ہے شریعت سازی کرتا ہے جو کفر ہے اور ایسا شخص اس حدیث میں بیان کردہ وعید کا مستحق ہے جس کے راوی صحابہ کی تعداد ۸۰ سے زیادہ ہے اور اس کا یہ عمل مسلمانوں کے اجماع کے خلاف ہے۔ حافظ ابن صلاح اپنے مقدمہ میں تحریر فرماتے ہیں : ((التائب من الکذب فی حدیث الناس و غیرہ من اسباب الفسق تقبل روایتہ الا التائب من الکذب متعمدا فی حدیث رسول اللہ صلي اللّٰه عليه وسلم ، فإنہ لا تقبل روایتہ أبدا، و إن حسنت توبتہ علی ما ذکر غیر واحد من اہل العلم منہم أحمد بن حنبل و ابو بکر الحمیدی شیخ البخاری)) ’’لوگوں سے بات چیت میں کذب بیانی اور دوسرے اسباب فسق سے توبہ کرنے والے کی روایت قبول کی جائے گی، رہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کی روایت میں جان بوجھ کر جھوٹ بولنے والا تو اس کی روایت کبھی بھی قبول نہیں کی جائے گی، اگرچہ اس کی توبہ صحیح ہو، ایک سے زیادہ اہل علم کا، جن میں احمد بن حنبل اور