کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 235
دراصل اس کتاب کا موضوع سند حدیث پر تنقید نہیں ہے۔ آپ نے زیب داستان کے لیے یا اپنی بات میں وزن پیدا کرنے کے لیے حافظ ابن عبدالبر، ابو عمر یوسف بن عبداللہ قرطبی کو بھی حدیث کی سند میں کمزوری دکھانے والوں میں شامل کر لیا، جبکہ ان کی کتابوں ، ’’جامع بیان العلم وفضلہ اور التمہید‘‘ کا موضوع حدیث کی سند میں کسی کمزوری کی نشاندہی نہیں ہے، بلکہ یہ کتابیں ، خاص طور پر جامع بیان العلم حدیث کی قدرو منزلت اور محدثین کی خدمات حدیث کے بیان سے عبارت ہے۔ یہ دونوں ائمہ ایک ہی عصر میں تھے، ابن عبدالبر بغدادی سے ۲۴ برس قبل ۳۶۸ھ میں پیدا ہوئے، جبکہ بغدادی ۳۹۲ھ میں ، البتہ دونوں کا سال وفات ایک ہی یعنی ۴۶۳ھ ہے، بغدادی کا تعلق بغداد سے تھا اور ابن عبدالبر کا قرطبہ، اندلس سے۔ قرآن وحدیث میں مبتدعین سے حدیث روایت کرنے کی ممانعت نہیں آئی ہے: امین احسن اصلاحی کو بڑ مارنے کی عادت تھی وہ اپنے شاگردوں کو حدیث سے متنفر کرنے کے لیے حدیث کے خلاف بڑے برے دعوے کرنے کے خوگر تھے۔ اس تیسرے ’’خلا‘‘ کے دوسرے فقرے میں فرماتے ہیں ۔ واقعہ یہ ہے کہ ازروئے قرآن، ازروئے حدیث اور حدیث کے مجموعی مزاج کے تقاضے کے لحاظ سے مجرد اہل بدعت کے گروہ سے ہونا ضعف کے لیے کافی ہے، اگرچہ راوی اپنی بدعت کا داعی نہ رہا ہو۔‘‘[1] ان کے خلیفہ ڈاکٹر برنی نے بھی اس دعویٰ میں کچھ مزید شدت پیدا کرتے ہوئے اسے دہرایا ہے۔ ان دونوں بزرگوں سے عرض گزار ہوں کہ اہل بدعت بلاشبہ گمراہ ہیں ، لیکن قرآن وحدیث کے حوالہ سے ان کو ضعیف قرار دینا اللہ ورسول پر افترا ہے قرآن نے جس خبر دینے والے کو فاسق کہا ہے وہ مسلمانوں ہی کا ایک گمراہ فرد ہے، لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کی دی ہوئی خبر کو مسترد کرنے کے بجائے اس کی تحقیق کرنے کا حکم دیا ہے اور محدثین میں سے جن لوگوں نے کسی بدعتی سے کوئی حدیث روایت کی ہے، یہ تاکید کر لینے کے بعد روایت کی ہے کہ وہ مبتدع ہونے کے باوجود روایت حدیث میں عدل اور امین تھا، رہا اس کا حافظہ اور ضبط تو یہ محل بحث ہی نہیں ہے کیونکہ جو شخص حافظ وضابط نہ رہا ہو اس سے کوئی بھی محدث حدیث روایت نہیں کر سکتا، الا یہ کہ اس نے اپنی کتاب سے حدیث روایت کی ہو، یہاں یہ بتانا تحصیل حاصل ہے کہ اصول روایت محدثین ہی کے وضع کر دہ ہیں اور وہ ان اصولوں اور ان کے ساتھ دین کے احکام کو اصلاحی اور برنی سے سے زیادہ جانتے تھے اور ان کو حدیث رسول کی اہمیت کا علم بھی ان سے زیادہ تھا۔ ڈاکٹر برنی کا یہ فرمانا کہ: ’’اول تو یہ بات ہی ناقابل یقین ہے کہ کسی عقیدے پر قائم رہنے والے اس کے داعی نہ رہے ہوں … بالفرض اگر مان بھی لیا جائے کہ حدیث کا راوی اپنے بدعتی عقیدے کا داعی نہیں ، لیکن اس کی روایتوں سے لازماً اس کے عقیدے کا انعکاس ہوگا۔‘‘ محض ان کی بَڑ ہے۔ ایسا ہونا قطعاً لازمی نہیں ہے۔ اولاً تو محدثین نے ایسے
[1] ص: ۹۵