کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 234
محبت ہے اور نہ بخاری اور مسلم سے، اور ان کے ان مغالطوں سے عام قاری دھوکا کھا جاتے ہیں ، کیونکہ بذات خود صحیح ماخذوں تک ان کی رسائی نہیں ہے۔ شرم ان کو مگر نہیں آتی: ڈاکٹر برنی کی ڈھٹائی ملاحظہ ہو، فرماتے ہیں : سند کی ان کمزوریوں کو کہیں زیادہ شدت کے ساتھ خطیب بغدادی، علامہ ابن عبدالبر اور دوسرے علماء بیان کر چکے ہیں ان علماء کو خواہ متاخرین قرار دیا جائے یا معتزلہ کے زیر اثر سمجھا جائے، مگر ان کے دلائل کی مضبوطی سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ جناب والا! اگر آپ Aspirin یا Panadol کی ترکیب اور ان کے طبی خواص بیان فرماتے، تو ہم کہتے کہ ایک طبیب ہونے کے ناطے آپ کا یہ حق ہے، لیکن الکفایہ اور اس کے مصنف کا نام تو آپ کو اپنے امام کی تحریروں سے معلوم ہوا ہے اور اپنی تحریروں میں آپ اپنے الفاظ میں انہی کے دعووں کو دہراتے بھی ہیں ، ایسی صورت میں ، کیا حدیث کی سند میں اپنی من گھڑت اور فرضی کمزوریوں کے بیان کو ان کی طرف منسوب کرتے ہوئے آپ کو شرم نہیں آئی، شرم وحیا تو مومن کا زیور ہے، پھر آپ نے یہ کیا ستم کر ڈالا کہ بغدادی کے ساتھ آپ نے ابن عبدالبر قرطبی کو بھی گھسیٹ لیا، مزید کچھ بے نام علماء کو بھی، کوئی بھی اپنی متاع حیات کو آگ نہیں لگاتا اور حدیث ان علماء کی متاع حیات تھی اس کی قدسیت میں وہ کیڑے کس طرح نکالتے؟ ڈاکٹر صاحب! میں حدیث کا بہت معمولی سا طالب علم ہوں ، مگر جو دعویٰ کرتا ہوں اس کے دلائل کا انبار لگا دیتا ہوں ، آپ اور آپ کے امام تو صرف دعوے کرتے ہیں دلائل سے آپ کی جھولی خالی ہے، مستشرقین دین کے دشمن تھے اس کے باوجود جو دعوے کرتے تھے اس کے دلائل دیتے تھے غلط ہی سہی اس لیے کہ جس زاویہ نظر سے ہو انہوں نے حدیث اور علوم الحدیث کا مطالعہ کیا تھا آپ نے جب اتنی بڑی بات زبان سے نکالی تھی تو اس کی تائید میں بغدادی اور قرطبی کی کتابوں سے خود ان کی مختصر عبارتیں نقل کر دیتے۔ بغدادی اور قرطبی نے حدیث کی سند پر کوئی تنقید نہیں کی ہے: حافظ خطیب بغدادی نے اپنی کتاب الکفایہ میں ائمہ حدیث کے اقوال کی روشنی میں علم روایت کے اصول بیان کیے ہیں ، بعض ابواب کے تحت انہوں نے مختصراً اپنے خیالات کا بھی اظہار کیا ہے، رہے ائمہ کے اقوال تو ان میں سے بہت سے اقوال کی نسبت ان کے قائلین سے صحیح نہیں ، اور اس کو معلوم کرنا آپ کے امام کے بس میں بھی نہیں تھا اور آپ کے بس میں بھی نہیں ہے اس کتاب میں بغدادی نے علم روایت کے وہی اصول بیان کیے ہیں جو متقدمین کی کتابوں میں موجود ہیں ، کتاب کی پہلی جلد کے ص: ۳۶۷ سے۴۰۰ تک سند حدیث کے بیان سے متعلق ہیں ۔ ان صفحات میں انہوں نے حدیث کی سند میں کسی کمزوری، خلا یا عیب کی نشاندہی نہیں کی ہے شدت کے ساتھ بیان کرنا تو دور کی بات ہے،