کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 233
میں کھل بلی مچ گئی، کفار مکہ نے اولاد آدم کے سردار اور ان کے رفیق سفر کو گرفتار کرنے والے یا ان کے بارے میں پتا دینے والے کے لیے ۲۰۰ اونٹوں کے گراں قدر انعام کا اعلان بھی کر دیا، مگر ابن اُرقد کا دل نبی اور ان کے جاں نثار صحابی کے سفر ہجرت کے راز کا مدفن بنا رہا تین دن بعد وہ اپنی تحویل میں موجود دونوں اونٹنیاں لے کر غار کے پاس پہنچ گیا اور ان کو ساتھ لے کر بحفاظت وسلامتی مدینہ کے لیے روانہ ہو گیا اور نہایت پر امن اور محفوظ راستے سے اللہ کے ان محبوب بندوں کو مدینہ پہنچا دیا اور وہاں سے واپس آ گیا، اور فقیر کا فقیر رہا۔
میں نے یہ واقعہ اس لیے بیان کیا ہے کہ تاکہ یہ واضح کر سکوں کہ عبداللہ بن اُرقد کے اس استثنائی واقعہ سے مشرکین پر عدم اعتماد کے الٰہی حکم پر زد نہیں پڑتی۔
ٹھیک اسی طرح بعض محدثین نے معاشرے کے جن مبتد عین اور نفس پرستوں سے احادیث روایت کی ہیں وہ عام نقاد رجال کے نزدیک تو ضعیف تھے، مگر ان محدثین کی ذاتی تحقیق کی رو سے صادق وامین تھے اور تجربہ یہ بتاتا ہے کہ بدعتوں کا ارتکاب کرنے والے کتنے لوگ مثالی کردار رکھتے ہیں اور صدق گوئی میں اپنا ثانی نہیں رکھتے، اور محدثین کے انفرادی طرز عمل سے عدالت راوی کی شرائط بھی متاثر نہیں ہوتیں ۔
حب علی یا بغض معاویہ؟
امین اصلاحی اور ڈاکٹر برنی اپنی تحریروں سے یہ تاثر دینے کے خوگر نظر آتے ہیں کہ انہوں نے حدیث کی کتابوں کا مطالعہ بھی کیا ہے اور وہ فن رجال سے بھی واقف ہیں اور بڑی بڑی کتابوں کے حوالے بھی دیتے ہیں ۔ اصلاحی صاحب نے اہل بدعت سے روایات لینے میں امام مالک رحمہ اللہ کو مستثنی قرار دیا ہے ویسے بھی وہ مؤطا اور صاحب مؤطا کے بڑے مداح تھے۔ ڈاکٹر برنی اپنی تحریروں سے یہ تاثر دیتے ہیں کہ وہ مستقل شخصیت کے مالک ہیں اور انہوں نے خود مطالعہ کر کے ’’سند حدیث‘‘ میں یہ کمزوریاں معلوم کی ہیں یہ دونوں بزرگ ہیں تو ایک دوسرے کی کاپی، اور ڈاکٹر برنی، جیسا کہ میں پہلے عرض کر چکا ہوں قرآن کی کسی آیت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی حدیث کا ترجمہ بھی نہیں کر سکتے اس لیے اصلاحی صاحب کی تحریروں سے بے نیاز نہیں ہو سکتے۔ انہوں نے بھی اپنے ’’غیر معلن‘‘ امام کی سُر میں سُر ملا کر یہ راگ الاپا ہے کہ ’’اہل بدعت سے روایت لینے میں امام مالک یقینا محتاط تھے‘‘ کیا یہ توارد افکار ہے یا امام بخاری کی پرخاش میں باہمی اتفاق اور ہم خیالی؟ اوپر صحابی سے دو تابعین کے حدیث روایت کرنے سے متعلق امام مسلم کی جس شرط کا دعویٰ انہوں نے کیا ہے اس کو میں ’’کنڈم‘‘ کر چکا ہوں اور اس دوسرے دعویٰ کی تردید میں عبدالکریم بن ابی المخارق سے امام مالک کے حدیث روایت کرنے کے واقعہ کو پیش کیا جا سکتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ دونوں بزرگ اور ان کے ہمنوا اور ہم روش دوسرے اہل قلم برملا تو امام بخاری کو نشانہ بنا کر اپنی رسوائی کا کام نہیں کر سکتے، اس لیے اپنی ’’جھوٹی تحقیق‘‘ کے حوالہ سے ان کو نشانہ بناتے ہیں ، ورنہ نہ ان کو امام مالک سے