کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 232
تحقیق کے دائرہ میں کیا ہے، ورنہ ’’عدالت راوی‘‘ کے معاملہ میں وہ جمہور کے ساتھ ہیں ۔ امام مسلم نے اپنی صحیح کے مقدمہ میں ایک عنوان ان الفاظ میں قائم کیا ہے۔ ((لا یؤخذ الحدیث إلا ممن ہو أہلہ من ثقۃ وصاحب دین وسنۃ دون بدعۃ وأن الإسناد من الدین۔)) ’’حدیث صرف ان لوگوں سے لی جاتی ہے جو قابل اعتماد، دیندار اور سنت کے پیرو ہوں ، بدعتی نہ ہوں اور سند بیان کرنا دین میں شمار ہوتا ہے۔‘‘ اس کے بعد ایک دوسرا باب ان الفاظ میں قائم کیا ہے: ((الجرح علی الرواۃ وبیان أحوالہم وکشف معایبہم، وأنہ واجب ولیس من الغیبۃ وبیان قبح من یعتد بأحادیث الضعفاء ویرویہا۔)) ’’راویوں کی جرح، اور ان کے حالات کا بیان اور ان کے عیوب کی نقاب کشائی فرض ہے، غیبت نہیں ہے، اور اس شخص کا طرز عمل معیوب ہے جو ضعیف راویوں کی روایت کردہ حدیثوں کو درخور اعتناء سمجھتا ہے اور ان کی روایت کرتا ہے۔‘‘ روایت حدیث میں اپنے اس سخت نقطہ نظر اور احتیاط پسندی کے باوجود بعض ضعیف راویوں سے ان کا حدیث روایت کرنا محل اعتراض نہیں ہے، اس لیے کہ ان کی اپنی تحقیق کی رو سے وہ سچے اور امانتدار تھے۔ ۴۔ بدعتی اور گمراہ لوگوں میں سچے اور امانت دار اور قابل اعتماد افراد ہو سکتے ہیں ، مشرکین کی حق دشمنی مسلم ہے، قرآن پاک میں ان سے ہوشیار رہنے، ان پر اعتماد نہ کرنے اور ان سے بچتے رہنے کی بڑی تاکید آئی ہے اس کے باوجود ان میں قابل اعتماد، حد درجہ سچے، امانت دار اور ہمدرد بھی تھے، ایسے لوگوں کی مثال میں عبداللہ بن اُرقُد (اُریقط) کا نام پیش کیا جا سکتا ہے۔ یہ شخص مشرک تھا، مگر ابو بکر رضی اللہ عنہ کے تجربے اور تحقیق کی رو سے بے حد قابل اعتماد تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کے لیے اذن الٰہی کے منتظر تھے ابو بکر رضی اللہ عنہ کو یہ توقع تھی کہ یہ موقع بہت جلد آنے والا ہے اور ان کو یہ امید اور خواہش دونوں تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو اپنا رفیق سفر بنائیں گئے اس لیے وہ خفیہ طور پر ہجرت کی تیاری کر رہے تھے، انہوں نے عبداللہ بن اُرقد کے حوالہ دو اونٹنیاں کر دی تھیں کہ وہ انہیں کھلائے پلائے اور طویل سفر کے لیے تیار کرے وہ بڑی آسانی سے مشرکین مکہ کو یہ خبر دے سکتا تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ابو بکر سفر ہجرت کی تیاریاں کر رہے ہیں اس طرح وہ ان کا محبوب نظر بن سکتا تھا اور بعد میں ان کا انعام بھی حاص کر سکتا تھا، مگر ابوبکر نے اس کو جس بات کا راز دار بنایا تھا اس کو اس نے اپنوں سے زیادہ اپنے دل میں دفن کیے رکھا، اذن الٰہی کی آمد پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ابو بکر رضی اللہ عنہ شہر سے نکلے اور غار ثور میں جا کر روپوش ہو گئے اور تین دن روپوش رہے۔ ادھر مکہ