کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 231
(ص: ۳۸۱، ج: ۶) میں اس کے بارے میں لکھا ہے: ’’من رجال مسلم‘‘ مسلم کے راویوں میں سے ہے، اس سے بعض لوگ یہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ جب یہ مسلم کے راویوں میں سے ہے تو لازماً ثقہ ہوگا۔ اسی وجہ سے راویوں کی صحیح جان کاری کے لیے رجال کی متعدد کتابیں دیکھنی پڑتی ہیں ، جس طرح کسی لفظ کی تشریح کے لیے لغت کی کئی کتابیں دیکھنی پڑتی ہیں ۔ چنانچہ حافظ ابو الحجاج یوسف مزی نے تہذیب الکمال (ص: ۲۷۶، ج: ۱۸) میں اس کے بارے میں لکھا ہے: ’’روی لہ مسلم مقرونا بغیرہ‘‘ مسلم نے اس کی حدیث دوسرے راوی کے ساتھ روایت کی ہے‘‘ اس تعبیر نے بات صاف کر دی، اور کوئی اشتباہ باقی نہیں رہا جس کی تفصیل یہ ہے کہ امام مسلم نے کتاب الحج میں ایک باب باندھا ہے جس کا عنوان ہے: ((لا یحل القارن إلا بعد ما ینحرہدیہ۔)) ’’قران کرنے والا اپنی قربانی کر لینے بعد ہی احرام سے آزاد ہوتا ہے۔‘‘ اس باب کے تحت امام مسلم رحمہ اللہ پانچ حدیثیں لائے ہیں ۔ [1] یہ ساری حدیثیں مختلف سندوں کے ساتھ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہیں اور آخری سند کے علاوہ تمام سندیں بے غبار ہیں ، اور اس آخری سند میں عبدالمجید بن عبدالعزیز شامل ہے جس نے یہ حدیث ابن جریج سے روایت کی ہے۔ ۲۔ کسی راوی سے حدیث روایت کرنے اور حدیث لینے میں فرق ہے، روایت کے معنی ہیں کہ اس کے حوالہ سے حدیث بیان کر دی اور بس، جیسا کہ امام مسلم نے کیا ہے، لیکن حدیث لینے کے معنی ہیں کہ اس کی روایت کردہ حدیث کو دلیل بنایا ہے ان دونوں میں خلط ملط کر دینے سے جو غلط نتائج نکلتے ہیں وہ بھی اہل نظر پر مخفی نہیں ، اصلاحی، برنی اور ان کے ہمنوا فن حدیث سے تو واقف نہیں ، اس پر مستراد یہ کہ محدثین کے کاموں میں جھول اور خلا دکھا کر ’’ذخیرۂ حدیث‘‘ کو مشکوک بنانا بھی ان کے پیش نظر ہے اس لیے ان کے قلم سے صحیح باتیں نکلتی بھی نہیں اور نکل بھی نہیں سکتیں ۔ ۳۔ جس محدث نے کسی بدعتی سے کوئی حدیث روایت کی ہے یا شاذو نادر اس کو دلیل بھی بنایا ہے تو اپنی تحقیق کی روشنی میں اس کو روایت حدیث میں صدق گو اور امانت دار پا کر ہی ایسا کیا ہے اور بالکل درست کیا ہے اور حکم الٰہی کے عین مطابق کیا ہے اللہ تعالیٰ نے فاسق کی دی ہوئی خبر ملنے پر اس کو ردّ کرنے اور ٹھکرانے کا حکم نہیں دیا ہے، بلکہ تحقیق کرنے اور چھان پھٹک کر کے اس کی صحت وسقم معلوم کرنے کا حکم دیا ہے، اور ڈاکٹر برنی کے بقول آیت میں ’’نبأ‘‘ سے مراد اہم خبر ہے، اور یہ معلوم ہے کہ حدیث سے زیادہ کوئی خبر ’’اہم‘‘ نہیں ہو سکتی۔ جن محدثین نے ایسا کیا ہے تو اولا تو انہوں نے ایسا کسی ضابطہ یا قاعدہ کلیہ کے تحت نہیں ، بلکہ اپنی انفرادی
[1] نمبر: ۱۲۲۹، ۱۷۶، ۱۷۷، ۱۷۸، ۱۷۹۔