کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 230
انہوں نے بھی زیب داستان کے لیے ’’الکفایہ‘‘ سے امام احمد کا یہ قول نقل کیا ہے کہ: ’’اگر معاملہ فضائل اعمال وغیرہ کا ہو جس سے نہ کوئی حکم قائم ہوتا ہو اور نہ کوئی حکم منسوخ ہوتا ہو تو حدیث کی سند میں ہم تساہل برتتے ہیں ۔‘‘ [1]
عرض ہے کہ امام احمد کی طرف منسوب یہ قول جھوٹ اور افترا ہے اس کی سند کے ایک راوی ابو عبداللہ نوفلی کو، جس نے امام احمد سے یہ قول سننے کا دعویٰ کیا ہے، امام ابو زرعہ، امام ابو حاتم اور ان کے بیٹے ابن ابی حاتم نے جھوٹا قرار دیا ہے، امام عبدالرحمن بن ابی حاتم فرماتے ہیں : میں نے اپنے والد کو فرماتے ہوئے سناہے کہ: ’’اس نے ایسے شخص سے بھی روایت کی ہے، جو پیدا بھی نہیں ہوا‘‘ اس کا پورا نام اور لقب ہے: احمد بن خلیل بن حرب بن عبداللہ بن سوار بن سابق قومسی نوفلی۔ [2]
اہل بدعت سے حدیث روایت کرنے اور حدیث لینے میں فرق:
اصلاحی، برنی اور دوسرے منکرین نے یہ تاثر دیا ہے کہ تمام محدثین یا محدثین کی اکثریت اہل بدعت اور گمراہ فرقوں سے تعلق رکھنے والوں سے روایات لینے میں کوئی قباحت نہیں خیال کرتے تھے، تو یہ کئی وجہوں سے امر واقعہ کی صحیح ترجمانی نہیں ہے جس کی تفصیل حسب ذیل ہے:
۱۔ پہلی بات تو یہ کہ اہل بدعت سے علی الاطلاق روایات لینے کی بات غلط اور امر واقعہ کے خلاف ہے؛ جو بات امر واقعہ ہے وہ صرف اتنی ہے کہ بعض محدثین نے سب نے نہیں بعض مبتدعین سے، سب سے نہیں احادیث روایت کی ہیں اور رویات لی نہیں ہیں ، بایں معنی کہ جو بدعتی روایت حدیث میں صدق گو اور سچا تھا بعض محدثین نے، جن میں امام شافعی، امام احمد بن حنبل، امام مالک، امام بخاری، امام مسلم جیسے اکابر شامل ہیں انفرادی طور پر ان سے حدیث روایت کی ہے، اور یہ بھی اعتبار کے لیے زیادہ بطور دلیل بہت کم، اعتبار کے معنی ہیں کہ ایسے راوی کی روایت کردہ حدیث کے متعلق غورو تدبر اور تتبع کر کے یہ دیکھا جاتا تھا کہ اس حدیث کی روایت میں اس سے بہتر کوئی راوی شریک ہے یا نہیں ۔ دوسرے لفظوں میں ایسے بدعتی کی روایت کردہ حدیث کو اس سے بہتر سند سے مروی حدیث کی تائید (متابعت) اور موافقت کی غرض سے لیا جاتا تھا، امام مسلم نے اپنی صحیح میں ایسا بہت کیا ہے کہ کسی باب کے تحت پہلے وہ صحیح احادیث لائے ہیں ، پھر بعد میں وہ اسی مضمون سے متعلق ایسی حدیثیں بھی لائے ہیں جن کے راوی ثقاہت میں کچھ فروتر ہیں ایسے راوی کو اصطلاح میں ’’متابع‘‘ یا ’’مقرو نا بغیرہ‘‘ کہتے ہیں جس کا مطلب ہے: ایسا راوی جو کسی دوسرے راوی سے مل کر قابل اعتماد ہوتا ہے تنہا نہیں ، مثال کے طور پر ایک راوی عبدالمجید بن عبدالعزیز ہے جو تقریباً تمام نقاد رجال کے نزدیک ضعیف ہے، حافظ ابن حجر نے تہذیب التہذیب
[1] روشنی، ۲۹ مئی ۲۰۰۹ء
[2] الجرح والتعدیل ص: ۱۱، ج: ۲، ترجمہ ۴۹، میزان الاعتدال ص: ۲۳۲، ج: ۱، ترجمہ ۳۶۶