کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 229
والبدع۔)) خواہش پرستوں اور بدعتوں کے خوگر لوگوں سے روایت حدیث کے جواز پر اہل حدیثوں کے ائمہ سے جو بعض اقوال منقول ہیں ان کے بیان کا باب۔ ۳۔ ((باب التشدد فی أحادیث الأحکام والتجوز فی فضائل الاعمال۔)) احکام کی حدیثوں کو لینے میں سخت گیری اور اعمال کے فضائل کی حدیثوں کو لینے میں سہل انگاری کا باب۔ ان تینوں ابواب کے تحت انہوں نے ائمہ حدیث میں سے بعض کے ایسے اقوال نقل کیے ہیں جن میں سے کچھ تو اہل بدعت واہوا، کی جملہ روایات مسترد کر دینے پر دلالت کرتے ہیں ، کچھ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اگر بدعتی بدعت کا داعی نہ رہا ہو تو اس کی صدق گوئی پر اعتماد کر کے اس کی مرویات قبول کر لی جائیں گی اور کچھ اہل حدیث یہاں تک گئے ہیں کہ اگر راوی کذب بیانی کا قائل نہ رہا ہو تو اس کی مرویات روایت بھی کی جائیں گی اور ان سے استدلال بھی کیا جائے گا۔ بغدادی نے ان تینوں ابواب کے تحت علمائے حدیث کے جو اقوال نقل کیے ہیں ، اولاً: تو ان میں سے بیشتر کی نسبت ان کے قائلین سے صحیح نہیں ہے، ثانیا: ان سے جمہور محدثین کے مسلک کی نمایندگی نہیں ہوتی، ثانیا: اہل بدعت سے علی الاطلاق روایت حدیث کا دعویٰ درست نہیں ہے، پہلے میں اصلاحی صاحب کے دعوی کا خلاصہ نقل کر دیتا ہوں پھر امر واقعہ کی روشنی میں اس پر تبصرہ کروں گا، مولانا تحریر فرماتے ہیں : ’’سند کی تحقیق میں تیسرا خلا یہ ہے کہ ہمارے ائمہ نے اہل بدعت، خصوصاً شیعہ اور روافض سے روایات لینے میں بڑی مسامحت برتی ہے۔ یہ لوگ دوسرے معاملات میں تو بڑے بیدار ثابت ہوئے ہیں ، لیکن صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس معاملہ میں انہوں نے واقعی چشم پوشی سے کام لیا ہے۔ امام مالک رحمہ اللہ سے متعلق تو بے شک اس معاملہ میں احتیاط منقول ہے، لیکن دوسرے تمام ائمہ: امام شافعی، امام احمد بن حنبل، امام ابو حنیفہ، قاضی ابو یوسف، امام مسلم رحمہم اللہ وغیرہ کے متعلق صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ حضرات اہل بدعت سے روایت لینے میں کوئی قباحت نہیں خیال کرتے تھے۔ بس اتنی احتیاط فرماتے تھے کہ ان کے خیال میں وہ اپنی بدعت کا باقاعدہ داعی نہ ہو، گویا ان کے نزدیک مبتدع سے روایت لینے میں کوئی قباحت نہیں تھی۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ ازروئے قرآن، ازروئے حدیث اور حدیث کے مجموعی مزاج کے تقاضے کے لحاظ ے مجرد اہل بدعت کے گروہ سے ہونا ضعف کے لیے کافی ہے، اگرچہ راوی اپنی بدعت کا داعی نہ رہا ہو۔‘‘ [1] جاوید غامدی صاحب نے سند کے مسئلہ میں کچھ زیادہ نہیں فرمایا ہے، بلکہ سند کی تحقیق کے متعلق محدثین کے قائم کردہ معیار کو سراہا ہے اور اس کو قطعی قرار دیتے ہوئے یہ فرمایا ہے کہ ’’اس میں کوئی کمی بیشی نہیں کی جا سکتی۔‘‘[2] رہے ڈاکٹر برنی تو ان کا ماخذ صرف ’’مبادیٔ تدبر حدیث‘‘ ہی ہے، لیکن انداز بیان ایسا ہے گویا انہوں نے علوم الحدیث کی امہات الکتب کا گہر امطالعہ کرنے اور محدثین کے اعمال کا جائزہ لینے کے بعد سند میں یہ کمزوریاں پائی ہیں ۔
[1] ص: ۹۵ [2] ص: ۷۸