کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 228
ملاوٹ سے اس کو پاک رکھنے کی کوششوں کو انسانی طاقت کی آخری حد قرار دیتے ہیں ، میرا دعویٰ ہے کہ یہ بات اگرچہ درست ہے، لیکن امر واقعہ کی صحیح تصویر نہیں ہے؛ محدثین کی خدمات حدیث کی صحیح تصویر اور عکاسی یہ ہے کہ یہ اپنے آخری رسول اور محبوب رہنما اور قائد کی حسین ترین اور مطلوب ترین خدمات ہیں ، انفرادی طور پر تو ہر محدث کی خدمات میں بعض کمزوریاں مل سکتی ہیں ، مگر مجموعی طور پر ان کمزوریوں کو ثابت کرنا جوئے شیر نکالنے کے مترادف ہے۔
محمود ابوریہ، سلیمان ندوی، انور کشمیری، شبلی نعمانی، امین اصلاحی، جاوید غامدی اور افتخار برنی وغیرہ نے نقاد حدیث کی جرح وتعدیل اور حدیث کی صحت و سقم معلوم کرنے کے اہم اور بنیادی ذریعہ سند میں جس خلا یا کمزوریوں کے دعوے کیے ہیں اور ان کو دکھانے کی سعی لاحاصل کی ہے۔ میں ان کو مان لوں گا، مگر اس شرط پر کہ وہ کسی خبر، یا واقعہ یا اولاد آدم میں سے محمد بن عبداللہ فداہ ابی وامی صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کسی اور نبی، رسول یا بزرگ کے اقوال وافعال اور سیرت کی حفاظت سے متعلق محدثین کی خدمات کی مثال، کسی اور فرد، جماعت اور قوم کی خدمات کی حوالہ کے ساتھ پیش کر دیں ، اگر نہیں کر سکتے اور یقیناً نہیں کر سکتے تو ڈینگیں ہانکنا چھوڑ دیں ، ورنہ پھر انکار حدیث کے ساتھ تمام فقہی اقوال، شعر وادب کے تمام ذخیروں ، ارسطور وافلا طون کے فلسفوں ، بلکہ ان کے ناموں ، لغت ومحاورات کے تمام نمونوں ، اقوام عالم کی سرگزشتوں ، حتیٰ کہ انسانی نسب ناموں کا انکار کر دیں ، کیونکہ ان کی حفاطت کے لیے محدثین کے کاموں کا عشر عشیر کام بھی نہیں ہوا ہے۔
(۳)… سند کا تیسرا خلا، اہل بدعت سے حدیث کی روایت:
مولانا امین احسن اصلاحی کی ’’مبادیٔ تدبر حدیث‘‘ کے مطالعہ سے یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ اولاً تو حدیث اور متعلقات حدیث کا ان کا مطالعہ نہایت سطحی اور محدود تھا؛ لے دیکے انہوں نے صرف حافظ بغدادی کی کتاب ’’الکفایہ‘‘ پڑھی تھی، ثانیا: وہ جو کچھ پڑھتے تھے اس میں محدثین کے نقائص اور عیوب تلاش کرتے تھے، مستشرقین نے بھی یہی کیا ہے، لیکن اس اعتبار سے وہ معذور ہیں کہ غیر مسلم اور معاند اسلام ہونے کی وجہ سے حدیث کے ذخیرے کو نا قابل اعتبار قرار دینے کی ان کی کوششیں ان کے مذہبی فرائض میں داخل تھیں ، لہٰذا علم کے نام پر انہوں نے جہالتوں کا ارتکاب کر کے اپنا فرض مذہبی ادا کیا ہے، رہے اصلاحی صاحب اور ان کے دونوں شاگرد، غامدی اور برنی تو ان کا شمار تو اسلام اور مسلمانوں کے بہی خوابوں میں ہوتا ہے، پھر انہوں نے کس جذبے سے مستشرقین کی روش اپنائی ہے؟
حافظ بغدادی نے اپنی کتاب ’’الکفایہ فی معرفۃ اصول علم الروایہ‘‘ جلد اول میں تین ابواب ان عنوانات کے تحت قائم کیے ہیں :
۱۔ ((باب ما جاء فی الأخذ عن أہل البدع والأہواء، والاحتجاج بروا یاتہم۔)) اہل بدعت اور خواہشات کے بندوں سے حدیث روایت کرنے اور ان کے مرویات سے استدلال کرنے کا باب۔
۲۔ ((باب ذکر بعض المنقول عن ائمہ اصحاب الحدیث فی جواز الروایہ عن اہل الأہواء