کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 226
اس کی بنیاد پر کوئی قاعدہ کلیہ بنا لیا جائے اور یہ دعویٰ شروع کر دیا جائے کہ ’’اکثر محدثین جس شخص کو ظاہر میں زاہد وپارسا دیکھتے تھے ثقہ سمجھ کر اس سے روایت شروع کر دیتے تھے‘‘ کیونکہ زہدو پارسائی کسی بھی محدث کے نزدیک ثقاہت کی علامت اور دلیل نہیں رہی ہے۔ عبدالکریم بن ابی المخارق سے ان کے حدیث روایت کرنے کی حقیقت صرف اتنی ہے کہ وہ بصرہ کا رہنے والا تھا اور مکہ کے ایک مدرسہ میں معلم تھا، بظاہر بڑا باوقار اور صاحب جلال تھا، امام مالک کے شہر مدینہ کا باشندہ بھی نہیں تھا اس طرح وہ اس کی اس ظاہری حالت اور مسجد میں اس کی باقاعدہ حاضری اور خشوع وخضوع سے نماز کی ادائیگی سے متاثر ہو گئے، پھر امام مالک نے اس سے جو دو حدیثیں روایت کی ہیں وہ اس کے سوا دوسری سندوں سے مروی ہیں اور صحیح وثابت ہیں ، ایک حدیث نماز میں بائیں ہاتھ پر دائیں ہاتھ کے رکھنے کی حدیث ہے۔ [1] راوی کی عدالت معلوم کرنا انسانی بس سے باہر نہیں : ڈاکٹر افتخار برنی کا دعویٰ ہے کہ سند کی دوسری کمزوری کا تعلق براہ راست جرح وتعدیل سے ہے، کسی شخص کے کردار کا تعین کرنا کوئی آسان کام نہیں ہوتا، کردار کی تمام پرتوں سے آگاہی انسانی بس سے باہر ہے‘‘ تو یہ دعویٰ حدیث اور محدثین کے بارے میں ان کی بد ظنی اور جرح وتعدیل کی حقیقت سے ان کی لا علمی کا غماز ہے؛ دراصل راوی کی جرح وتعدیل کا اس کی جن صفات سے تعلق ہے ان کے بارے میں مکمل اور اطمینان بخش واقفیت حاصل کرنا محنت طلب تو ضرور ہے، لیکن نا ممکن ہر گز نہیں ہے، ورنہ اللہ تعالیٰ نے اس کا حکم نہ دیا ہوتا اس کا علان ہے کہ وہ انسانوں کو انہی کاموں کی ذمہ داری سونپتا ہے جن کی وہ استطاعت رکھتے ہوں ، قارئین سے درخواست ہے کہ میں نے عدل راوی اور مجروح راوی کے جو اوصاف بیان کیے ہیں ان پر ایک نظر ڈال کر موصوف کے اس دعویٰ پر غور کریں تو ان شاء اللہ ان کو جہاں یہ معلوم ہو جائے گا کہ جن اوصاف کا حامل راوی ثقہ قرار دیا جاتا ہے اور جن اوصاف سے موصوف ہونے کی وجہ سے وہ غیر ثقہ قرار پاتا ہے ان کو معلوم کرنا قطعا انسانی بس سے باہر نہیں ہیے؛ محدثین اپنے زمانے کے تمام لوگوں کے کردار کا تعین کرنے نہیں نکلے تھے، بلکہ صرف ان لوگوں کے حالات معلوم کرنے کی غرض سے نکلے تھے جن کے نام روایت حدیث سے جڑے ہوئے تھے، بسا اوقات کسی انسان سے مختصر سی ملاقات اور اس کے ساتھ محض چند باتیں اس کے عقائد بھی بیان کر دیتی ہیں ، روایت حدیث سے متعلق اس کے نقطہ نظر کو بھی واضح کر دیتی ہیں ، زہدو ورع اور تقویٰ اور پاکیزگی اخلاق کے بارے میں اس کے تصورات سے پردہ بھی اٹھا دیتی ہیں اور لوگوں سے عموماً اور روایت حدیث میں خصوصاً صدق گوئی اور امانت داری کی جو اہمیت ہے اس کے بارے میں اس کے نظریے کو بھی عیاں کر دیتی ہیں ، ایسا بھی ہوتا کہ
[1] ابن خزیمہ: ۴۷۷، ۴۷۸، ۴۷۹، بخاری: ۷۴۰، ابو داود: ۷۵۵، نسائی: ۸۸۷، ابن ماجہ: ۸۱۱، اور دوسری حدیث حیاء سے متعلق ہے۔ ’’إذالم تستحی فاصنع ماشئت‘‘ (بخاری: ۳۴۸۴) الجرح والتعدیل، ص: ۷۵۔۷۶، ج: ۶، میزان الاعتدال، ص: ۳۸۷۔۳۸۸، ج:۴، فتح المغیث، ص: ۱۸۲، ج: ۲۔