کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 225
مذکورہ بالا عبارت میں جہاں تک مولانا کے پہلے قول کا معاملہ ہے تو یہ ان کی بھول اور لغزش پا ہے۔ راوی کی عدالت میں زہد وتوکل اور کثرت عبادت کا شمار ہی نہیں ہوتا۔ ایسی صورت میں کسی محدث کے بظار کسی زاہد وعابد اور سفیدپوشی سے حدیث روایت کرنے کی بات بالکل غلط ہے، خاص طور پر جبکہ اہل تصوف زہد وتوکل، کثرت صوم وصلوٰۃ اور اَوراد و اَذکار کی کثرت کے باوجود روایت حدیث میں کذب بیانی کے لیے مشہور ہو چکے تھے اور محدثین ان کی حقیقت سے واقف ہو چکے تھے، ایسی صورت میں اکثر محدثین کا ان کا ظاہری پارسائی سے دھوکا کھا جانا بعید از وقوع ہے۔ محدثین کے دور میں صوفیا اور زہاد صالحین کے ناموں سے جانے جاتے تھے اور ان کے بارے میں اکابر محدثین کے کیا نظریات تھے ان کا اندازہ علم الرجال کے امام یحییٰ بن سعید قطان کے اس قول سے کیا جا سکتا ہے: ((لم نرالصالحین فی شیء أکذب منہم فی الحدیث۔)) ’’ہم نے صالحین کو حدیث سے زیادہ کسی اور چیز میں جھوٹا نہیں دیکھا۔‘‘ [1] یہی یحییٰ ایک دوسرے موقع پر فرماتے ہیں : ((یجری الکذب علی لسانہم ولا یتعمدون الکذب۔)) ’’جھوٹ ان کی زبانوں پر جاری رہتا ہے اور وہ قصداً جھوٹ نہیں بولتے۔‘‘ [2] اس قول کا مطلب یہ ہے کہ کذب گوئی ان کی لازمی صفت بن چکی ہے اور جھوٹ بولتے ہوئے ان کو اس کا احساس بھی نہیں ہوتا، اور تصوف کی کتابیں ان کی کذب بیانیوں کی شاہد ہیں ۔ عباد بن کثیر بڑا صالح وزاہد شخص گزرا ہے، زہد و ورع اور اعمال خیر میں اس کی مثال دی جاتی تھی، لیکن روایت حدیث میں وہ غیر ذمہ دار اور غیر امین تھا۔ امام مسلم نے اپنی صحیح کے مقدمہ میں لکھا ہے کہ عبداللہ بن مبارک نے سفیان ثوری سے پوچھا کہ آپ کو عباد کا حال تو معلوم ہے، کیا میں لوگوں سے یہ کہوں کہ وہ اس سے حدیث روایت نہ کریں ؟ فرمایا: ہاں ۔ (ص: ۳۸) جس وقت عباد بن کثیر کا انتقال ہوا اس وقت سفیان ثوری مکہ میں تھے، مگر اس کی نماز جنازہ میں شریک نہیں ہوئے، اور امام شعبہ اس کے لیے استغفار نہیں کرتے تھے۔ [3] کیا ان تفصیلات کے بعد بھی یہ دعویٰ درست ہو سکتا ہے کہ ’’اکثر محدثین جس شخص کو ظاہر میں زاہد وپارسا دیکھتے تھے ثقہ سمجھ کر اس سے روایت شروع کر دیتے تھے؟ رہا عبدالکریم بن ابی المخارق سے امام مالک کے حدیث روایت کرنے کا واقعہ تو اپنے ثابت ہونے کے باوجود یہ امام مالک کے معمول پر دلالت نہیں کرتا اور روایت حدیث میں ان کی احتیاط پسندی اور شدت کے منافی بھی نہیں ہے کہ
[1] مقدمہ مسلم: ۳۸۔ [2] ص: ۳۹ [3] فۃ المنعم فی شرح مسلم، ص: ۳۸۔