کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 224
والے محدث لیث بن سعد سے کہاں اور کیسے سنی؟ اور جب یوسف مزی سے پوچھا گیا تو انہوں نے بتایا کہ لیث بغداد گئے تھے‘‘[1] معلوم ہو کہ لیث بن سعد ۱۶۱ھ ہجری میں عراق گئے تھے اور وہاں چند ماہ قیام کر کے حدیث کے حلقات قائم کیے تھے۔ [2] یہ ایک چھوٹا سا واقعہ ہے، مگر ان منکرین کے منہ پر ایک زوردار طمانچہ ہے جو راوی اور مروی عنہ یا ناقد رجال اور راوی حدیث کے درمیان مکانی فاصلوں کو ’’ہوا‘‘ بنا کر ناقدین کے احکام اور راویوں کی مرویات کو ناقابل اعتبار قرار دینے کی سعی مذموم کرتے ہیں ۔ مولانا شبلی کی لغزش پا: عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے منسوب ایک دوسرا قول کچھ مختلف الفاظ میں بھی منقول ہے، اور خطیب بغدادی نے الکفایہ میں اسے نقل کیا ہے، (نمبر: ۲۲۰) اس کا ترجمہ درج ذیل ہے: ’’عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس ایک شخص نے ایک شخص کی تعریف کی، عمر نے اس سے فرمایا: کیا کبھی کسی سفر میں تم اس کے ساتھ رہے ہو؟ اس نے کہا: نہیں ، فرمایا: کیا کسی امانت میں اس پر اعتماد کیا ہے؟ کہا: نہیں ، فرمایا: کیا کسی حق کے معاملے میں تمہارے اور اس کے درمیان معاملہ ہو اہے؟ کہا: نہیں ، فرمایا: چپ رہو، میرے خیال میں تمہیں اس کے بارے میں کوئی علم نہیں ہے، میرا گمان ہے کہ اللہ کی قسم تم نے اسے مسجد میں سر جھکاتے اور اٹھاتے دیکھا ہے۔‘‘ [3] اس قول کی نسبت عمر سے پہلے قول سے بھی زیادہ کمزور ہے اس کی سند کا ایک راوی مصاد بن عقبہ ہے جس کو صرف ابن حبان نے ثقہ کہا ہے اور ابن حبان کی توثیق ان کی سہل انگاری کی وجہ سے محدثین کے یہاں مقبول نہیں ہے، اس مصاد نے یہ اثر جس شخص کے حوالہ سے روایت کیا ہے وہ مجہول ہے، اس طرح یہ ناقابل التفات ہے۔ یہ قول مولانا شبلی نے نقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ ’’ احادیث کے باب میں بڑی غلطی جو لوگوں سے ہوئی، یہی تھی کہ اکثر محدثین جس شخص کو ظاہر میں زاہد وپار سا دیکھتے تھے ثقہ سمجھ کر اس سے روایت شروع کر دیتے تھے۔ عبدالکریم بن ابی المخارق جو ایک ضعیف الروایہ شخص تھا اس سے امام مالک نے روایت کی ہے، لوگوں نے پوچھا کہ آپ ایسے شخص سے روایت کرتے تھے؟ فرمایا: ((غرنی بکثرۃ جلوسہ فی المسجد۔)) ’’مسجد میں اپنے بکثرت بیٹھنے سے اس نے مجھے دھوکا دے دیا۔‘‘ [4]
[1] فتح المغیث ص: ۵۱۵، ج: ۴۔ [2] سیر أعلام النبلاء، ص: ۴۲۵، ج: ۷۔ [3] ص: ۲۷۹، ج: ۱ [4] الفاروق، ص: ۳۶۰۔