کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 223
ہو چکی ہیں جن کے عالی مقام اور گراں قدر مصنفین دوستوں سے پہلے دشمنوں میں مؤیدین سے پہلے مخالفین میں ، قدر دانوں سے پہلے ناقدروں میں اور انصاف پسندوں سے پہلے غیر منصفوں میں اپنے علم وفضل، وسعت معلومات، اصابت رائے اور حق پسندی اور غیر معمولی قوت حافظہ کے اعتبار سے شہرت رکھتے ہیں اور ان نفوس قدسیہ نے اپنی خدا داد صلاحیتوں کے ساتھ اس مقدس کام کے لیے اپنی عمر مستعار کا بیشتر حصہ وقف کر رکھا تھا اور راویوں کے حالات معلوم کرنے کے لیے ہمہ وقت سفر میں رہتے تھے، چنانچہ مایہ ناز ناقد رجال امام شعبہ اور جرح وتعدیل کے غیر منازع امام ابو حاتم اور ان کے بیٹے ابن ابی حاتم کی پوری زندگی سفر ہی میں گزر گئی، کیا اس کے بعد بھی زمان ومکان کے فاصلوں کی بات اور راویوں کے حالات معلوم کرنے کے لیے سیرت عمری پر عمل کا مشورہ زیب دیتا ہے۔
۲۔ محدثین سیرت عمری نہیں ، سیرت مصطفوی کے پابند تھے، اور انہوں نے فرمان الٰہی: ﴿فَتَبَیَّنُوْا﴾ کی اپنی صوابدید کے مطابق تعمیل کا حق ادا کر دیا جس کے وہ اہل بھی تھے، بلاشبہ وہ فرشتہ نہیں تھے، لیکن مسجود ملائکہ ضرور تھے، اور ان کا نصب العین سید البشر صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کی حفاظت تھا جن کی خدمت میں سید الملائکہ با ادب حاضر ہوتے تھے اس تناظر میں وہ اس مقدس جماعت میں شامل تھے اور شامل رہیں گے جو اللہ تعالیٰ کی انعام اور فضل یافتہ جماعت تھی (النساء: ۶۹) آپ کا مشورہ کہ: حسن ظن رکھنا اچھی بات ہے، مگر یہ غلو کی حد تک نہیں جانا چاہیے‘‘ سر آنکھوں پر، مگر اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ ان کی ’’ناقدری‘‘ کی جائے جس کے مرتکب وہ لوگ ہو رہے ہیں جو ان کی کتابوں کی ایک سطری عبارت سمجھنے کی استعداد بھی نہیں رکھتے، اور خدمت حدیث کی راہ میں ایک قدم بھی نہیں چلے ہیں ۔
۳۔ آپ اور آپ جیسے جدید محققین سیرت عمر پر چلنے کی دعوت ’’حب عمر‘‘ میں نہیں دے رہے ہیں ، بلکہ اس زعم میں دے رہے ہیں کہ محدثین نے راویوں کی جرح وتعدیل تجربے، مشاہدے اور معاملات کے بغیر کر دی ہے۔
۴۔ طلبۂ حدیث پر راویوں کے شہر اور وطن کی معرفت ضروری ہے۔ آپ علوم الحدیث کی کوئی بھی کتاب اٹھا لیجئے اس میں آپ کو ’’معرفۃ أوطان الرواۃ وبلادہم‘‘ کا باب ضرور ملے گا اس سے یہ انداز لگایا جا سکتا ہے کہ محدثین نے راویوں کی ثقاہت وعدم ثقاہت معلوم کرنے کے جتنے طریقے ذہن بشری میں تھے سب پر عمل کیا ہے اور اس راہ پر چلنے والوں کے لیے اس کو لازمی قرار دے دیا ہے، چنانچہ یونس بن محمد مؤدب بغدادی نے لیث بن سعد مصری سے حدیث روایت کی ہے، یونس بن محمد بغداد کے رہنے والے تھے اور ثقہ اور سچے تھے[1] جبکہ لیث بن سعد مصر سے تعلق رکھتے تھے، اور حدیث اور فقہ کے امام تھے حافط ابو حجاج یوسف بن زکی مزی (۷۴۲) کے زمانے میں کسی عالم حدیث کے ذہن میں یہ اشکال پیدا ہوا کہ بغداد کے رہنے والے یونس بن محمد نے یہ حدیث مصر کے رہنے
[1] الجرح والتعدیل ص: ۳۰۲، ج: ۹۔