کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 222
أن لاأعرف، إیت بمن یعرفک، فقال رجل من القوم: أنا أعرفہ قال: بأی شیء تعرفہ؟ قال: بالعدالۃ والفضل، فقال: ہو جارک الأدنی الذی تعرف لیلہ ونہارہ ومدخلہ ومخرجہ؟ قال: لا، قال: فعاملک بالدینار والدرہم الذی یُستدل بہ علی مکارم الأخلاق؟ قال: لا،قال: لستَ تعرفہ، ثم قال للرجل: إیت بمن یعرفک۔)) ’’عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس ایک شخص نے گواہی دی، انہوں نے فرمایا: میں تمہیں نہیں جانتا اور میرا نہ جاننا تمہارے لیے نقصان دہ بھی نہیں ہے، ایسے شخص کو لاؤ جو تمہیں جانتا ہو، لوگوں میں سے ایک شخص عرض گزار ہوا: میں اسے جانتا ہوں ، فرمایا: کس حیثیت سے اسے جانتے ہو؟ عرض کیا: عدالت اور فضیلت کی حیثیت سے، فرمایا: کیا یہ تمہارا قریبی پڑوسی ہے کہ اس کی رات اور دن اور اس کے دخول وخروج سے تم واقف ہو؟ عرض کیا: نہیں ، فرمایا: کیا اس نے تم سے دینار ودرہم کا معاملہ کیا ہے جن سے پرہیز گاری کو معلوم کیا جاتا ہے؟ عرض کیا: نہیں ، فرمایا: کیا یہ تمہارا رفیق سفر رہا ہے جس سے اخلاق کی بلندی پر استدلال کیا جاتا ہے؟ عرض کیا: نہیں فرمایا: تم اسے نہیں جانتے، پھر گواہی دینے والے شخص سے فرمایا: ایسے شخص کو لاؤ جو تمہیں پہچانتا ہو۔‘‘ [1] اثر عمری سے وجہ استدلال: بلاشبہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ایک جلیل القدر صحابی تھے اور سبقت الی الاسلام، دین میں استقامت، معاملہ فہمی، لوگوں کی شناخت، حق گوئی اور جرأت وبیباکی کے حوالہ سے آپ کو صحابہ میں ایک امتیازی مقام حاصل تھا اور اس اثر سے، بشرط صحت کسی انسان کی شناخت اور معرفت کے نہایت اہم اصول معلوم ہوتے ہیں ، کل اصول نہیں ، بایں ہمہ اس اثر سے ڈاکٹر برنی کا حدیث کی سند میں کمزوری پر استدلال چند وجوہ سے بے محل بھی ہے اور غلط بھی۔ ۱۔ سند میں اصلاحی صاحب نے جس خلا اور برنی صاحب نے جس کمزوری کا دعویٰ کیا ہے وہ خود فرضی ہے جس کی کوئی حقیقت نہیں ہے اور خود ان دونوں بزرگوں کے اعتراف سے، محدثین نے راویان حدیث کی جو جرح وتعدیل کی ہے وہ انسانی صلاحیت کی آخری حد کو پہنچی ہوئی ہے‘‘ ایسی صورت میں انسانوں کی پہچان کے اصول عمری پر عمل تحصیل حاصل ہے، بایں معنی کہ یہ عمل ان اصولوں سے زیادہ جامعیت کے ساتھ ادا کیا جا چکا ہے اور سیکڑوں ’’ماہرین فن‘‘ نے اتفاقاً نہیں قصداً اور ارادۃً ناقلین حدیث نبوی کے حالات، ان کی عدالت وامانت اور صدق گوئی اور حفظ وضبط کی صفات خود اپنے ذریعہ سے اور حد درجہ بے لوث اور صدق گو متعلقین کی شہادتوں کے ذریعہ معلوم کر کے ثبت کر دی ہیں ، اس عمل پر صدیان گزر چکی ہیں اور ان ناقلین کی سیرتوں پر دسیوں ایسی کتابیں مدون
[1] الضعفاء، ص: ۱۱۴۲، ج: ۳، الکفایہ، ص: ۲۷۷۔۲۷۹، ج: ۱۔