کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 221
اس مختصر سی عبارت میں بغدادی نے جرح وتعدیل کے تمام مطلوبہ اصول سمیٹ دیے ہیں ، اور یہ واضح فرما دیا ہے کہ راوی کے حالات اور سلوک کو جانچے اور پرکھے بغیر اس کو عدل نہیں قرار دیا جا سکتا ہے، اور یہ مقصد اس کے بغیر حاصل نہیں کیا جا سکتا کہ ہر راوی ٔحدیث سے اگر وہ زندہ ہو اس کے حالات، نشست وبرخاست، خیالات ونظریات، سلوک، امانت داری، صدق گوئی، پاکیزگی ٔاخلاق اور معاملات کی درستگی کو معلوم کیا جائے۔ جس کو ہمارے محدثین نے نہایت خوبی کے ساتھ ادا کر کے ہزاروں راویوں کو اس شکل میں پیش کر دیا ہے کہ ہم ان کو روایت حدیث کا اہل یا نا اہل اور ثقہ اور غیر ثقہ قرار دینے کا مقام حاصل کر چکے ہیں ، محدثین کا یہ کام ایسا نہیں ہے کہ اس کی تعریف میں یہ کہنا درست ہو کہ: ’’ماہرین فن اسماء الرجال نے انسانی صلاحیت کی آخری حد تک کوششیں کی ہین اور اس سے زیادہ کے وہ مکلف بھی نہیں تھے (برنی) بلکہ اس کام کی تعبیر ان الفاظ میں زیادہ مناسب ہے: محدثین نے راویان حدیث کی جرح وتعدیل کے لیے جو اعمال انجام دیے ہیں ان سے بہتر عمل کا کوئی تصور بھی ذہن انسانی میں نہیں تھا، اور اس سے زیادہ کرنا بھی انسانی قدرت میں نہیں تھا، اور صرف وہی نہیں بلکہ، دنیا کا کوئی بھی انسان اس سے زیادہ کا مکلف نہیں ہے اور نہ کبھی تھا۔‘‘
آگے بڑھنے سے پہلے یہ عرض کر دوں کہ اگر ڈاکٹر برنی یہ مانتے ہیں کہ فن اسماء الرجال کے ماہرین نے انسانی صلاحیت کی آخری تک کوششیں کی ہیں ، تو پھر سند میں کمزوریاں کہاں سے آ گئیں ، جبکہ علم جرح وتعدیل سیکڑوں ائمہ جرح وتعدیل کے مجموعی عمل کا نتیجہ ہے؟!!
جو راوی بقید حیات نہیں ہوتے تو ناقدین ان کے رشتے داروں ، متعلقین، اس کے شہر کے اہل علم وفضل سے ان کے بارے میں معلومات جمع کرتے اور ان کی روشنی میں معلومات دینے والوں کے حوالہ سے ان کی ثقاہت اور عدم ثقاہت کا حکم لگاتے، تاریخ بغداد میں حافظ بغدادی نے اور تاریخ دمشق میں حافظ ابن عساکر نے بے شمار ایسے راویوں کے حالات وکوائف بیان کیے ہیں اور ان کے بارے میں ان کے متعلقین کے اقوال درج کیے ہیں ۔
عمر رضی اللہ عنہ سے منسوب اثر صحیح نہیں ہے:
بغدادی نے الکفایہ میں عمر رضی اللہ عنہ کا جو اثر نقل کیا ہے اس کی ر وایت امام بیہقی نے السنن الکبری اور السنن الصغریٰ میں (نمبر: ۴۱۴۰) اور حافظ عقیلی نے الضعفاء (نمبر ۱۵۱۱) میں کی ہے۔ حافظ عقیلی کی کتاب کا موضوع ہی ضعیف راویوں کا بیان ہے۔ انہوں نے شیبان نحوی کے حوالے سے اس اثر کے راوی فضل بن زیاد کے بارے میں لکھا ہے: ((لا یُعرف إلا بہذا وفیہ نظر۔)) وہ صرف اسی روایت کے ذریعہ معروف ہے اور اس کی صحت محل نظر ہے، امام ذہبی اور حافظ ابن حجر نے بھی اس کو مجہول قرار دیا ہے۔ حافظ عقیلی نے اس اثر کا جو متن نقل کیا ہے وہ درج ذیل ہے:
اثر عمری کا متن:
((شہد رجل عند عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ بشہادۃ، فقال: لست أعرفک ولا یضرک