کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 220
صفت کا علم جس کی روایت قبول کر لی جاتی ہے اور جس کی روایت مسترد کر دی جاتی ہے۔ کا مطالعہ کر سکتے ہیں اس باب کے تحت ان تمام فرضی اشکالات کا مکمل جواب مل جائے گا جو آپ اور آپ کے امام ومرشد جیسی ذہنیت رکھنے والے لوگ برابر اٹھاتے رہتے ہیں ، اور میں نے آپ کے امام اصلاحی صاحب کے ارشادات کا جواب دیتے ہوئے بڑی تفصیل سے حدیث کی سند میں ’’خلا‘‘ سے متعلق ان کے بلند بانگ، مگر فرضی دعووں کی حقیقت بیان کردی ہے، آپ نے الفاظ بدل کر دراصل انہیں دعووں کو دُہرایا ہے۔
عرض کر چکا ہوں کہ علمی مباحث میں انشا پردازی کے بجائے دلائل کی زبان میں بات کی جاتی ہے۔ چونکہ آپ کا ماخذ معلومات اصلاحی صاحب کے افادات ہی ہیں اور ان کے یہ افادات ’’علوم الحدیث‘‘ کے گہرے، وسیع اور مخلصانہ مطالعہ کا حاصل نہیں ہیں ، بلکہ الکفایہ کے مطالعہ کا حاصل ہیں اور اس کتاب کو بھی انہوں نے محدثین کے کام میں جھول دکھانے کی غرض سے پڑھا تھا، لہٰذا اس کی جو باتیں مفید مطلب تھیں ان کو تو بطور دلیل نقل کر دیا ہے اور جن سے ان کی کور دبتی تھی ان کو نظر انداز کر دیا ہے۔
حافظ خطیب بغدادی کی بعض آراء سے صرف نظر کرتے ہوئے عرض کر دوں کہ حدیث کے قبول ورد کے مسئلہ میں جمہور محدثین اور ان کے نقطہ نظر میں کوئی خاص فرق نہیں ہے، اور اپنی کتاب ’’الکفایہ‘‘ میں عام طور پر انہوں نے یہ طریقہ اختیار کیا ہے کہ وہ ہر باب کے تحت علمائے حدیث کے اقوال نقل کرنے سے پہلے اس باب کے موضوع سے متعلق اپنا نقطہ نظر بیان کر دیتے ہیں ، چنانچہ جس باب کے تحت انہوں نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا وہ اثر نقل کیا ہے جس کا ذکر آپ نے اپنے الفاظ میں کیا ہے اس باب کا عنوان ہے:
((الرد علی من زعم أن العدالۃ ہی إظہار الإسلام وعدم الفسق الظاہر۔))
’’اس شخص کا جواب جس کا دعویٰ ہے کہ عدالت اسلام کے اظہار اور ظاہری فسق کی غیر موجودگی سے عبارت ہے۔‘‘
اس کے بعد اپنا نقطہ نظر بیان کرتے ہوئے لکھا ہے:
((الطریق إلی معرفۃ العدل المعلوم عدالتہ مع إسلامہ وحصول أمانتہ ونزاہتہ واستقامۃ طرائقہ، لا سبیل إلیہا إلا باختبار الأحوال وتتبع الأفعال التی یحصل معہا العلم من ناحیۃ غلبۃ الظن بالعدالۃ۔))
’’جس عدل راوی کی عدالت اس کے اسلام، امانت داری، پاکیزگی اور مسلک کی درستگی کے ساتھ معلوم کرنی ہو اس کی معرفت اور شناخت کا طریقہ صرف یہ ہے کہ اس کے حالات کی چھان پھٹک کی جائے اور اس کے ان اعمال کا پتا لگایا جائے جن کے ذریعہ ’’غلبہ ظن‘‘ کی صورت میں اس کی عدالت کا علم حاصل ہوتا ہے۔‘‘[1]
[1] (ص: ۲۷۴، ج: ۱)