کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 219
لاکھوں انسان جمع ہو جاتے، اہل سنت وجماعت اور ان کے علماء کے علاوہ مسلمانوں کے نئے فرقوں کے لوگ بھی اپنے ائمہ کے ساتھ یہاں جمع ہوتے اس طرح صحیح حدیثوں کے ساتھ جھوٹی اور من گھڑت روایات بھی محدثین کے علم میں آتیں چونکہ صحیح اور ضعیف ہر روایت سند کے ساتھ بیان کی جاتی اس طرح علمائے رجال کو ایسے راویوں کا بھی علم ہوتا جو بحث وتحقیق کرنے پر ضعیف یا جھوٹے، یا حدیث وضع کرنے والے ثابت ہوتے اس طرح ضعیف، وضاع اور جھوٹے راوی منظر عام پر آئے اور ان اغراض ومقاصد کا بھی علم ہوا جن کی خاطر انہوں نے یہ میدان اختیار کیا تھا۔ معلوم ہوا کہ راویوں کی جرح وتعدیل مشاہدات، تجربات اور معاملات پر مبنی ہے متقدمین میں حدیث کے درس ومطالعہ کے دوران اس کی سند بھی زیر بحث آتی اور جو حدیث وہ سنتے قطع نظر اس کے کہ وہ صحیح ہے یا ضعیف اس کے راویوں کے بارے میں پوری واقفیت حاصل کرتے جن شہروں سے ان کا تعلق ہوتا ان کا سفر کرتے، حدیث کے راوی ہونے کی وجہ سے ایسے لوگ معروف بھی ہوتے، نہ ہوتے تو محدثین ان کو تلاش کر لیتے، بحث رجال کا یہ عمل روایت حدیث سے جڑا ہوا تھا اور راویان حدیث آسمانی مخلوق نہیں ، زمینی مخلوق تھے، محدثین کے ہم شہر نہ سہی، ہم عصر تھے ایسی صورت میں زمان ومکان کے فاصلوں کی بات حقیقت حال سے لا علمی پر دلالت کرتی ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ کی سیرت کا ذکر بے محل ہے: ڈاکٹر افتخار برنی صاحب کو اپنے آپ پر ضرورت سے زیادہ اعتماد ہے، انہوں نے مسند میں اپنی من گھڑت دو کمزوریوں کے ذکر کے بعد عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے منسوب ایک اثر کا ذکر کرنے کے بعد علمائے حدیث کو یہ مشورہ دیا ہے کہ سند کی دونوں کمزوریوں کو اس اثر کی میزان میں تول کر ان کا وزن معلوم کریں ، فرماتے ہیں : ’’سند کی مندرجہ بالا دونوں کمزوریوں کو حضرت عمر فاروق کے اسوہ کی روشنی میں دیکھنے کی ضرورت ہے فاروق اعظم اس بات کو پسند نہیں کرتے تھے کہ کسی کے ساتھ معاملہ، سفر اور قیام کیے بغیر کوئی حتمی رائے دی جائے (رائے بھی وہ جس کا تعلق علم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی منتقلی سے ہو) حسن ظن رکھنا اچھی بات ہے، مگر یہ غلو کی حد تک نہیں جانا چاہیے، محدثین کرام بہت عظیم لوگ تھے، مگر انسان تھے، انہیں فرشتہ بنانے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔‘‘ موصوف کے سینہ میں حدیث اور ائمہ حدیث کے خلاف جو زہر تھا اس کو انہوں نے اس عبارت میں انڈیل دیا ہے، ان کے نقل کردہ اس اثر یا اسوہ عمری پر سنجیدہ تبصرہ کرنے سے قبل یہ عرض کر دینا چاہتا ہوں ، محدثین کا وضع کردہ علم جرح و تعدیل عمر یا غیر عمر کے اسوہ پر نہیں ، فرمان الٰہی: ﴿یَاأیُّہَا الَّذِیْنَ ئَ امَنُوْا إِنْ جَآئَکُمْ فَاسِقٌ بِنَبَأٍ فَتَبَیَّنُوْا﴾ پر مبنی ہے جس کے پابند خود عمر رضی اللہ عنہ بھی تھے اور انہوں نے راویان حدیث کی جو جرح وتعدیل کی ہے وہ آیت مبارکہ کے حکم ﴿فَتَبَیَّنُوْا﴾ کی صحیح اور مکمل تفسیر ہے میرے اس دعویٰ کی تصدیق کے لیے آپ اور آپ کے ہمنوا وہم خیال ’’علوم الحدیث‘‘ کی کسی بھی مستند کتاب کے باب: ((معرفۃ صفۃ من تُقبل روایتہ ومن ترد روایتہ۔)) اس شخص کی