کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 218
احادیث روایت کی ہیں اور تابعین کی ثقاہت محل بحث تھی اس لیے پہلی صدی ہجری کے نصف ثانی میں محدثین مختلف شہروں کے سفر زیادہ کرنے لگے تھے، اور تبع تابعین کے دور میں حصول علم حدیث اور رواۃ حدیث کے حالات کی کھوج کرید کی غرض سے سفر کی سرگرمیاں اور ایک شہر سے دوسرے کے درمیان آمدو رفت میں پہلے سے کہیں زیادہ اضافہ ہو چکا تھا اور تبع تابعین اور ان کے بعد کے محدثین کو تابعین سے کہیں زیادہ حدیثیں معلوم ہو گئیں ، شاہ ولی اللہ تحریر فرماتے ہیں : ’’بعض صحیح حدیثیں تابعین کے ان علماء کو نہیں معلوم تھیں جو افتاء کے منصب پر فائز تھے، اس لیے وہ اپنی آراء سے اجتہاد کرتے، یا عمومی احکام کی پیروی کرتے، یا صحابہ میں سے کسی کی اقتدا کرتے، اور اسی کے مطابق فتوے دیاکرتے، پھر اس کے بعد تیسرے طبقہ میں جب کچھ حدیثیں ظاہر ہوئیں تو انہوں نے اس خیال سے ان پر عمل نہیں کیا کہ یہ ان کے اہل شہر یا اس طریقے کے خلاف ہیں جس میں ان کا کوئی اختلاف نہیں ہے، یہ ان کے نزدیک صحت حدیث میں قادح اور اس کے ناقابل اعتبار ہونے کی علت قرار پائی، یا یہ حدیثیں اس کے بعد اس وقت ظاہر ہوئیں جب اہل الحدیث نے حدیث کے طرق کو زیادہ دقت نظر سے جمع کیا، اس کے لیے زمین کے مختلف علاقوں کے سفر کیے، اور حاملین حدیث کو تلاش کیا، تو کثیر تعداد میں ان کو ایسی حدیثیں معلوم ہوئیں جن کے راوی صحابہ میں ایک یا دو تھے اور ان سے روایت کرنے والے بھی ایک یا دو تھے، اس طرح اہل فقہ پر مخفی رہیں ۔ طرق حدیث کے جامع حفاظ کے زمانے میں ایسی بہت سی حدیثیں منظر عام پر آئیں جن کے راوی اہل بصرہ تھے اور دوسرے مقامات کے لوگ ان سے غفلت میں تھے ان حالات میں شافعی نے یہ واضح کیا کہ صحابہ اور تابعین میں اہل علم کا یہ وتیرہ تھا کہ وہ کسی مسئلہ سے متعلق احادیث معلوم کرتے اور جب نہیں پاتے تو کسی اور دلیل پر عمل کرتے، پھر جب ان کو حدیث معلوم ہو جاتی تو اپنے اجتہاد کو ترک کر کے حدیث پر عمل کرتے، ایسی صورت میں اس حدیث پر ان کا عمل نہ کرنا اس کی صحت کو داغدار نہیں بناتا۔‘‘ [1] مکہ، مدینہ، بغداد، دمشق اور کوفہ و بصرہ علمی مراکز تھے، حرم مکی اور حرم مدنی کو تو صحابہ کرام ہی کے زمانے سے مرکزیت حاصل تھی ہر دور میں ان دونوں میں تفسیر وحدیث کے حلقات قائم ہوتے اور تفسیر وحدیث کا علم حاصل کرنے والے ان حلقوں میں برابر حصہ لیتے اور وقت کے ائمہ تفسیر وحدیث سے فیض یاب ہوتے۔ مکہ اور مدینہ میں راویان حدیث کی بھی مسلسل آمدو رفت رہتی تبع تابعین کے دور میں اہل سنت وجماعت کے علاوہ دوسرے فرقے بھی پیدا ہو چکے تھے اور حدیث سے استدلال کرنا سب کا وتیرہ تھا محدثین کا بڑی تعداد میں ان کے مقدس شہروں میں قیام بھی رہتا اور علمی پیاس بھجانے کے لیے بھی وہ بار بار ان کا رخ کرتے حج کے زمانے میں تو ہر سال مکہ میں
[1] حجۃ اللّٰہ البالغہ، ص: ۴۲۱۔۴۲۲، ج: ۱۔